ہماری ادھوری کہانی

وجاہت علی عباسی  اتوار 4 مئ 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

کچھ دن پہلے فلوریڈا، یو ایس اے میں آئی فا ایوارڈز ہوئے، یہ بولی ووڈ میں ہونے والے ان درجن فلم ایوارڈز میں سے ہے جن کی دھوم ہونے سے بہت عرصے پہلے اور بہت بعد تک رہتی ہے۔

انٹرنیشنل انڈین فلم اکیڈمی ایوارڈز یعنی ’’iifaa‘‘ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایوارڈز ہر سال دنیا کے مختلف ملکوں میں کیے جاتے ہیں، کبھی سائوتھ افریقہ، کبھی مکائو، کبھی ٹورنٹو میں اور اس بار امریکا میں۔ امریکا کی ہالی ووڈ دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے جہاں کسی بڑی فلم کا چھ سو سے سات سو ملین ڈالرز کا بزنس کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے، ہندوستان کی بڑی سے بڑی فلم صرف پچیس سے تیس ملین ڈالرز کا بزنس کرتی ہے۔ بالی ووڈ ہالی ووڈ جتنا نہیں کماتا اس کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ فلمیں بنانے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ اگر ہالی ووڈ سال میں تین سو فلمیں بنارہا ہے تو بالی ووڈ ہزار، پچھلے چالیس سال سے انڈیا اس کوشش میں ہے کہ کس بھی طرح ہالی ووڈ کے ساتھ جڑے۔

’’My Passage From India‘‘ 1966 میں بنی انڈین فلم جس میں ششی کپور تھے، سے لے کر کچھ سال پہلے ریلیز ہونے والی فلم Pink Panther (پنک پینتھر) جس میں ایشوریا رائے تھیں تک یہ کوششیں بار بار نظر آتی ہیں لیکن کوئی بھی ایسی فلم ابھی تک نہیں آئی ہے کہ کہا جاسکے کہ انڈیا واقعی ہالی ووڈ میں صحیح طرح سے متعارف ہوگیا ہے۔

یا پھر ہندوستانی فلموں کا بڑے پیمانے پر امریکا میں ریلیز ہونا اس لیے ممکن نہیں کیوں کہ ایک عام امریکن ہندوستان کو صرف ایسی جگہ سمجھتا ہے جہاں بڑے بڑے ناریل کے درختوں کے بیچ لوگ ہاتھیوں پر سفر کرتے ہیں۔ ماڈرن انڈیا وہاں کے اداکاروں میں امریکا کو ’’سلم ڈاگ ملینیر‘‘ جیسی چھوٹی موٹی فلموں میں تو انٹرسٹ ہوسکتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں اور یہ بات انڈیا اچھی طرح سمجھتا ہے۔ انیل کپور کے پچھلے کچھ سال سے امریکن فلموں میں کام کرنے کی کوشش کو دیکھتے ہوئے انڈیا کو احساس ہوگیا کہ انھیں ہالی ووڈ کے بزنس کا حصہ بننے کے لیے اداکاری کے علاوہ دوسرے شعبوں میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور فلوریڈا میں ہونے والے آئی فا ایوارڈز اسی کا حصہ تھے۔

ہندوستان بہت سمجھ دار ہے اور جانتاہے کہ جتنا ان کے ملک کا بجٹ نہیں ہے سالانہ اس سے زیادہ ہالی ووڈ کماتا ہے اور اسی لیے انھوں نے اپنے آپ کو ہالی ووڈ کے سامنے بہت گرینڈ بناکر پیش کرنے کی ضرورت سمجھی۔

آئی فا نے فلوریڈا امریکا میں ہونے والے اپنے ایوارڈز کے لیے انیل کپور کو اپنا اسپوکس مین بنایا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا، انیل کپور وہ ایکٹر ہیں جو پچھلے پانچ سال میں ہالی ووڈ کی کئی اہم شخصیات سے روابط قائم کرچکے ہیں۔ اس لیے ان سے بہتر آئی فا کا ترجمان کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

پچھلے چھ مہینوں سے انڈیا سے متصل مختلف اداکار امریکا جاتے اور جگہ جگہ پریس کانفرنسیں کرتے ہیں، جس میں یہ بتانے کی کوشش کرتے کہ انڈیا فلم پروڈکشن میں کتنا آگے بڑھ چکا ہے۔ آئی فا کئی سال سے ہورہا ہے لیکن اس بار کا آئی فا ہر بار سے بڑا تھا۔ انڈیا نے درجنوں بڑے بڑے ہوٹلز، کانفرنس، سینٹرز، اسٹیڈیم اور کاریں بک کی ہوئی تھیں اور ایک دو نہیں درجنوں فنکشنز دنوں تک فلوریڈا میں چلتے رہے۔ اپنی فلم انڈسٹری کا کل بہتر کرنے کے لیے ہندوستانی اداکاروں نے اپنے ملک کے کل کی بھی پرواہ نہیں کی اور اپنے ملک میں ہونے والے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے بجائے اس دن فلوریڈا امریکا میں آئی فا کے ریڈ کارپٹ پر انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے مسکرانے کو ترجیح دی۔

دنیا کو لگا کہ ہندوستان صرف اپنے پچھلے سال کی فلموں کو سراہنے کے لیے یہ ایوارڈ کررہا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ہندوستان خود کو ان امریکن فلم میکرز سے متعارف کرا رہا تھا، جنھیں پہلے ہندوستان جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ بات آئی فا ایوارڈز کی رات صاف تھی کہ یہاں بالی ووڈ خود کو ہالی ووڈ کے سامنے منوانا چاہتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہم تم سے ٹیلنٹ میں کم نہیں ہیں۔ ہندوستان کے کئی اسٹوڈیوز اب ہالی ووڈ کے کئی فلم میکرز کو سستے ٹیکنیشن فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

جس طرح 70 کی دہائی میں ڈاکٹرز فارماسسٹ اور 90 میں پروگرامرز ہندوستان سے آئے یا پھر آئوٹ سورس (Source) کرکے پروجیکٹ انڈیا میں ہونے لگے، ویسے ہی اب فلموں کے ساتھ بھی ہوگا۔ فلمیں شوٹ تو امریکا میں ہوںگی لیکن ان کی پروڈکشن ایڈیٹنگ سمیت ہندوستانی تکنیک کار آدھی سے بھی کم قیمت میں کردیں گے۔

بالی ووڈ کے اتنے بڑے ایوارڈز کا امریکا میں کرنے کا مقصد اس مستقبل میں Invest کرنا تھا جو انھیں کچھ ہی سال میں اربوں کا فائدہ دے گا۔

جان ٹری وولٹا جیسے بڑے ہالی ووڈ ایکٹر کا آئی فا میں سب کو نمستے کرنا اور کیون اسپیسی کا لنگی ڈانس پر ناچنا اس بات کی دلیل ہے کہ انڈیا اپنی کوششوں میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ پچھلے کچھ سال میں پاکستان میں جو چیز بہتر ہوئی ہے وہ ہے ہمارا میڈیا۔ کمال کا ٹیلنٹ سامنے آیا جو پچھلے کچھ سال سے ہمیں اچھے میوزک، ڈراموں اور فلموں سے محظوظ کر رہا ہے۔ آئی فا کے ذریعے بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کو ساتھ دیکھ کر خیال آیا کہ یہ تو پاکستان بھی کرسکتا ہے۔ جہاں ہمارے باصلاحیت لوگ انڈیا کی طرح ہالی ووڈ میں کام کریں۔ لیکن پھر ہماری آنکھ کھل گئی، پتہ چلا کہ ہم تو اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں اتنے گھرے ہوئے ہیں کہ آگے بڑھنا تو دور کی بات ہے ہم تو مزید پیچھے جارہے ہیں۔

اس سال میں اب تک پاکستان میں چھپن (56) پولیو کے کیسز سامنے آچکے ہیں جس کے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) سنجیدگی سے غور کررہی ہے کہ پاکستانیوں کی بین الاقوامی سفر پر سخت پابندیاں لگادی جائیں۔ ہمارے منسٹر آف اسٹیٹ نے درخواست کی ہے کہ پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھا جائے اور ہمارے اوپر اس طرح کی پابندیاں نہ لگائی جائیں لیکن WHO نے اس درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانیوں کی مغربی ممالک کی طرف سفر کرنے پر پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ ان کے ذریعے پولیو دوبارہ دنیا بھر میں نہ پھیل جائے۔

جہاں ہم اپنے ٹیلنٹ کو باہر بھیج کر ملک میں سرمایہ لانے کا سوچ رہے تھے وہیں سچ یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کو دنیا کے بیشتر ممالک اپنا ویزا بھی نہیں دینا چاہتے۔ جہاں پچھلے سال سب سے زیادہ ناپسندیدہ ملکوں کی فہرست میں پاکستان ایران کے بعد دوسرے نمبر پر آیا تھا وہیں پولیو ویکسی نیشن نہ کروائے جانے پر مستقبل میں چیزیں مزید خراب ہوتی نظر آتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔