گاڈزیلا کی تباہ کُن ایٹمی شعاع اور اسکے پیچھے چھُپی سائنس
گاڈزیلا کی ایٹمی سانس تقریباً ہمیشہ مستحکم مرکوز بیم کے طور پر ظاہر ہوتی ہے
جوہری ہتھیاروں کے ایک محقق نے مشہور زمانہ فلم 'گاڈزیلا' کے منہ سے خارج ہونے والی ایٹمی شعاع کے بارے میں دلچسپ تجزیہ پیش کیا ہے۔
امریکی ریاست نیو جرسی میں سٹیونز انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں جوہری ہتھیاروں کے محقق الیکس ویلرسٹین کا کہنا ہے کہ گاڈزیلا کی آگ کے سامنے آنے والے کسی کے لیے جو فوری خطرہ ہوگا، وہ ہے جل کر بھسم ہوجانا۔ اور ابتدائی دھماکے سے بچ جانے والوں کو تابکاری کی بیماری کے بارے میں فکر مند ہونا پڑے گا۔
ویلرسٹین کا کہنا تھا کہ گاڈزیلا کی ایٹمی سانس تقریباً ہمیشہ مستحکم مرکوز بیم کے طور پر ظاہر ہوتی ہے جو کہ ایٹمی بھانپ، پانی کے بخارات یا تھوک سے بھری ہو سکتی ہے۔ ایسا میڈیم تابکار ذرات کو زبردست طریقے سے منظم کر سکتا ہے۔ ایٹمی سانس کا یہ ورژن حالیہ فلموں میں جوہری سانس کے حملوں کی طرح نظر نہیں آئے گا۔ بلکہ وہاں گاڈزیلا لیزر سے بنی شعاع مارتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہ پھر بھی جان لیوا ہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ خارج ہونے والی سانس کی شکل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گاڈزیلا کو ایٹمی شعاع پھونکنے کیلئے تابکاری کے ذرائع کی ضرورت ہوگی، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس طرح کے شدید حملے میں بہت زیادہ توانائی لگتی ہے۔ گاڈزیلا کے جسم کی اگر خصوصی اندرونی ساخت کو دیکھا جائے تو یہ ضروری ہے کہ اس کے جسم میں بائیو نیوکلیئر ری ایکٹر اور یورینیم 235 کو ذخیرہ کرنے کے لیے خصوصی اعضاء شامل ہوں۔
یورینیم 235 یورینیم کا ایک آئسوٹوپ یا ورژن ہے جو تابکار ہے۔ یہ عام طور پر جوہری پاور پلانٹس میں ایندھن ہوتا ہے۔ ویلرسٹین کا کہنا ہے کہ ہماری موجودہ دنیا میں یورینیم-235 آئسوٹوپ بہت زیادہ نہیں ہے۔ لہٰذا یورینیم-235 کی کمی کی وجہ سے زمین پر قدرتی طور پر ایٹمی شعاع خارج کرنے والی سانس کا تصور کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن ایک مختلف جہت یا سیارے میں جس میں یورینیم 235 کی مقدار بہت زیادہ ہو، تب یہ قابل ممکن ہو سکتا ہے۔