بنام شاہد نازک خیالاں

رئیس فاطمہ  جمعـء 8 دسمبر 2023
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر اسلم فرخی کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ ایک باکمال ادیب ہیں۔ دلی کی بامحاورہ ٹکسالی زبان لکھتے ہیں۔

انھوں نے متعدد شخصی خاکے لکھے ہیں۔ یہ خاکے ان کے قریبی عزیز اور دوستوں کے ہیں، خاکہ ہمیشہ قریبی دوست کے لیے لکھا جاتا ہے یا پھر ایسے شخص پر جسے خاکہ نگار بہت قریب سے جانتا ہو۔ اسلم صاحب کے شخصی خاکوں کے کئی مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔

اس وقت جو کتاب میرے زیر مطالعہ ہے اس کا نام ہے ’’گلدستہ احباب‘‘اس میں 17شخصی خاکے ہیں جو مختلف شخصیات پر لکھے گئے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر دو خاکے بہت پسند آئے پہلا ’’بنام شاہد نازک خیالاں‘‘ جوکہ جناب شاہد احمد دہلوی پر لکھا گیا، اور دوسرا ’’ذوالفقار علی بخاری۔‘‘ دونوں خاکے بہت طویل اور بہت اچھے ہیں، آج میں آپ کو شاہد احمد دہلوی کے خاکے سے متعارف کراتی ہوں۔

شاہد احمد دہلوی خالص دلی والے ہیں، دلی کی سادہ اور ٹکسالی زبان لکھتے ہیں، دلی میں ’’ساقی‘‘ نکالتے تھے جس کا ادب میں بہت بڑا نام تھا، تقسیم کے بعد دلی سے کراچی آگئے اور ریڈیو جوائن کر لیا، وہ بہت بڑے موسیقار بھی تھے، ریڈیو پر ہر اتوار کو پونے نو بجے موسیقی سکھانے کا پروگرام پیش کرتے تھے جو برسوں چلا۔

’’پیر الٰہی بخش کالونی کی اس گلی سے گزرتے ہوئے آخری مکان کے دروازے پر احساس ہوتا ہے کہ دستک دیتے ہی اندر سے ’’آئیے صاحب‘‘ کی مانوس اور پروقار آواز سنائی دے گی، پھر دروازہ کھلے گا اور شاہد بھائی اٹھ کر دروازے تک آئیں گے، لمبا قد، دہرا بدن، گندمی رنگ، چہرے پر شفقت اور شرافت کا تاثر، عینک سے جھانکتی تیز اور دل میں اتر جانے والی آنکھیں، گلے میں ململ کا کرتا، ہنستے ہوئے آگے بڑھیں گے، خیریت دریافت کریں گے اور پھر اطمینان سے اپنی مسہری پہ جا کر بیٹھ جائیں گے۔‘‘

شاہد بھائی خاصے محتاط تھے کیونکہ ان میں آج کل کا سا تصنع، تکلف اور خوش اخلاقی نہیں تھی، وہ تو مصلحت کے بھی قائل نہیں تھے، ملتے تھے تو ٹوٹ کر ملتے تھے، اعتماد کرتے تھے تو اندھا دھند اور بگڑتے تھے تو شمشیر بے نیام ہو جاتے تھے، بقول اقبال:

اس کی نفرت بھی عمیق اس کی محبت بھی عمیق

اس موقع پر مجھے اپنی شادی کا ایک واقعہ یاد آتا ہے، جو قاضی صاحب نکاح پڑھانے آئے تھے تو انھوں نے شاہد بھائی کو اہتمام میں مصروف دیکھا تو انھیں اشارے سے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگے ’’میں یہاں نکاح نہیں پڑھاؤں گا۔‘‘ شاہد بھائی نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ قاضی صاحب بولے ’’ابھی ابھی جو لڑکی یہاں سے گئی ہے۔

اس نے دو چوٹیاں ڈال رکھی ہیں، میں ایسی غیر اسلامی حرکت برداشت نہیں کر سکتا لہٰذا نکاح نہیں پڑھاؤں گا، میں جا رہا ہوں۔‘‘ شاہد بھائی نے انھیں اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر کہنے لگے ’’تو پھر بسم اللہ کیجیے کہیں ایسا نہ ہو ایمان میں اور خلل پڑ جائے۔‘‘ دو ایک لوگوں نے قاضی صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن شاہد بھائی اڑ گئے کہ اب یہ نکاح کوئی دوسرا قاضی ہی پڑھائے گا جس قاضی کا اسلام دو چوٹیوں سے خطرے میں پڑ جائے اس سے دور رہنا ہی اچھا۔‘‘ شاہد بھائی نے دوسرا قاضی بلوایا تب نکاح ہوا۔

’’شاہد بھائی فن اور فنکاروں کی بزرگی کے قائل تھے، دلی کے ایک پرانے موسیقار استاد یعقوب خان قیام پاکستان کے بعد شاہد بھائی ہی کے یہاں رہتے تھے، اکیلے آدمی تھے اگر شاہد بھائی سہارا نہ دیتے تو نامعلوم کیا حشر ہوتا۔ شاہد بھائی نے انھیں پورے احترام و خلوص سے رکھا۔

اسی طرح ایک اور موسیقار مکان کی وجہ سے بہت پریشان تھے، کسی جگہ جھونپڑی میں رہتے تھے، جھونپڑیاں اس جگہ سے اٹھائی جا رہی تھیں، شاہد بھائی کو علم ہوا تو اپنے مکان کے پچھلے حصے میں رہنے کی اجازت دے دی، وہ صاحب بہت دن تک وہاں رہے اور شاہد بھائی کو دعائیں دیتے رہے۔‘‘

’’عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔‘‘ وہ شاعری کے دلدادہ تھے، اچھے شعر سن کر داد دیتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ صرف یہ تھا کہ وہ شاعروں کی خفیف الحرکاتی سے بہت چڑتے تھے۔

ایک شاعر م۔م۔لطیفی مرحوم ایک بار دلی میں ان سے ملنے آئے، فرشی نشست تھی، لطیفی صاحب جوتے اتار کر بیٹھ گئے، خدا معلوم موزے کتنے دن سے نہیں دھلے تھے، جوتے اتارتے ہی سڑاند اٹھنے لگی۔

شاہد بھائی طوہاً و کرہاً برداشت کرتے رہے، انھیں کھانے کی دعوت بھی دی، مگر جب لطیفی صاحب رخصت ہونے لگے تو شاہد بھائی نے ایک آدمی ان کے ساتھ کیا اور اسے ہدایت کی کہ لطیفی صاحب کو نئے موزے خرید کر دے دینا۔ شام کو لطیفی صاحب کھانے پر آئے تو وہ نئے موزے پہنے ہوئے تھے۔‘‘

’’شاہد بھائی بہت کچھ تھے، بیوی پر جان چھڑکنے والے شوہر، شفیق باپ، دوست اور دوست نواز، شگفتہ مزاج، ادیب اور ادیب گر، موسیقار، وضع داری کا نمونہ، لیکن میں نے بعض اوقات یہ محسوس کیا کہ ان کی شگفتگی میں کبھی کبھی ایک کرب ناک ذہنی کیفیت جھلک مارتی ہے۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ میرا یہ خیال اور اندازہ کس حد تک صحیح ہے،لیکن نہ جانے کیوں مجھے یہ خیال ہوا کہ شاہد بھائی ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں، بے فکر اور لاپرواہ نظر آتے ہیں، لیکن سب کے باوجود ان کا دل دکھا ہوا ہے، ان کے قہقہوں سے عام ملنے جلنے والوں کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ان پر کیا گزری ہے۔

غالباً یہ سب کچھ دلی چھوٹنے کا اثر تھا، میں اس بات کی گواہی تو نہیں دے سکتا کہ مرزا غالب کے مرنے سے دلی مرگئی یا نہیں۔ اتنا جانتا ہوں کہ شاہد بھائی کے اٹھ جانے سے میرے لیے دلی مر گئی۔ وہ دلی جو صرف ایک شہر نہیں تھا ایک تہذیب اور ایک تاریخ تھی، شعر و ادب کا گہوارہ تھی، بائیس خواجاؤں کی چوکھٹ تھی، شاہد بھائی اس مٹی کی نشانی تھے۔

میں نے دلی کو انھی کی شخصیت، خاندان اور تحریروں سے پہچانا، جس دلی کو محمد حسین آزاد، ناصر نذیر فراق، راشد الخیری، مرزا فرحت اللہ بیگ، میر ناصر علی، آغا حیدر حسن، خواجہ حسن نظامی اور اشرف صبوحی نے اپنے مضامین میں زندہ کیا، وہی دلی شاہد بھائی کی تحریروں کا مرکز تھی، گنجینہ گوہر کے خاکے ہوں، دلی کی بپتا ہو، ’’ساقی‘‘ کا دلی نمبر ہو، شاہد بھائی کی شخصیت میں اسی دلی کا حسن ہے۔ وہ اسی دلی کا سنگھار تھے، کراچی میں دلی کی وضع داری اور آن بان انھی کے دم سے تھی۔‘‘

شاہد احمد دہلوی دلی کی آبرو تھے وہ دلی کے ایک بڑے ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، وہ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے پوتے اور میاں بشیر الدین جیسے صاحب علم و ادب کے بیٹے تھے، لیکن کراچی آ کر ان کی روزی روٹی کا سہارا وہ موسیقی بنی جسے ان کے خاندان والے پسند نہیں کرتے تھے، گویا موسیقی وہ کھوٹا سکہ تھی جو ان کے خاندان کی کفالت کا ذریعہ بنی۔

دلی سے جب شاہد صاحب نے لاہور ہجرت کی تو ان کی جیب میں صرف پچاس روپے تھے، کچھ عرصہ لاہور میں رہے اور ’’ساقی‘‘ کے ڈیکلریشن حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن انھیں کسی طور ’’ساقی‘‘ کا ڈیکلریشن نہ ملا، کچھ اور تلخیاں بھی انھیں جھیلنا پڑیں، بد دل ہو کر وہ کراچی آگئے اور یہاں انھیں ساقی کا ڈیکلریشن آسانی سے مل گیا، کیونکہ ساقی ادب نواز لوگوں کا پسندیدہ رسالہ تھا۔

شاہد صاحب نے زندگی بھر محنت کی اور حرف شکایت زبان پہ نہ لائے۔ خدا مغفرت کرے، وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔