عید بھی فلسطینیوں کے خون سے لہولہان

لاکھوں فلسطینی کیمپوں اوراقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے پرمجبور ہوچکے ہیں مگر اسرائیل ان کو بھی نشانہ بنا رہا ہے


Editorial July 31, 2014
لاکھوں فلسطینی کیمپوں اور اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں مگر اسرائیل ان کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

غزہ پر عید کے دن بھی اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری رہا اور فلسطینی مائیں عید کی خوشیاں منانے کے بجائے اپنے بچوں کے لاشے اٹھاتی اور بین کرتی رہیں۔ اسرائیل نے بربریت کی انتہا کرتے ہوئے مہاجر کیمپ کے قریب پلے گرائونڈ میں کھیلتے ہوئے بچوں پر میزائل حملہ کر کے دس کو شہید کر دیا۔

اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنگی اصولوں کے مطابق اسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا مگر ہر قاعدہ قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیلی طیاروں نے حملہ کر کے شہر کے سب سے بڑے شفاء اسپتال کو تباہ کر دیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی فوج کی بمباری سے اب تک 22 اسپتال یا طبی مراکز تباہ ہوچکے ہیں۔ عید کے دن سیکڑوں فلسطینی اسرائیلی حملوں کی پروا نہ کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئے اور مساجد میں نماز عید ادا کی۔

اسرائیل نے جمعرات کو بھی غزہ پر حملہ کر کے 10 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، اس طرح 24 روز میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 1374 ہو گئی ہے۔ اس طرح عید کے موقع پر فلسطینیوں کے جسموں سے خون اور آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ دنیا بھر میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے جاری ہیں مگر اسرائیل ان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے حملوں میں شدت لا رہا ہے۔ اسرائیلی بربریت اور سسکتے فلسطینیوں کا غم بیان کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ترجمان بھی رو پڑے۔ اسرائیل پرہجوم بازاروں' اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

امریکا اور اقوام متحدہ اسرائیل کی صرف لفظوں کی حد تک مذمت کر رہے ہیں اور اس کے ظلم کو روکنے کے لیے عملی اقدام تو ایک طرف اقوام متحدہ میں قرارداد مذمت تک پیش نہیں کی گئی۔ ایک جانب امریکی حکام اسرائیل کو فلسطینی شہریوں پر حملے نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں تو دوسری جانب حماس کے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر اسرائیل کی حمایت میں بیان دے رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور دیگر عالمی قوتیں درپردہ اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود اسرائیل فلسطینیوں پر حملے نہیں روک رہا بلکہ اس میں روز بروز شدت لا رہا ہے۔

بولیویا وہ واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ سے جدہ میں ملاقات کی اور صیہونی فوج کی جارحیت پر تبادلہ خیال کیا۔ شاہ عبداللہ نے مشکل وقت میں فلسطینی عوام کی ہر ممکن مدد جاری رکھنے کا یقین دلایا۔ فلسطینیوں کا اتنا زیادہ قتل عام ہونے کے باوجود ابھی تک او آئی سی یا عرب لیگ عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کر سکیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے ہی اسرائیل نے فلسطین پر حملہ کیا تھا او آئی سی تمام مسلم ممالک کا اجلاس طلب کرلیتی اور اس جارحیت کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس فیصلہ کرتی۔

اگر وہ ایسا کرتی تو ممکن ہے اقوام متحدہ، امریکا اور دیگر عالمی قوتوں پر دبائو پڑتا اور وہ اسرائیل کو اس کی جارحیت سے روکنے میں کامیاب ہو جاتیں مگر او آئی سی اور عرب لیگ کی بے عملی سے اسرائیل کو ہلہ شیری ملی اور اس نے بلا کسی خوف اور رکاوٹ کے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔

اب بھی اگر او آئی سی مسلم ممالک کو اکٹھا کر کے کم از کم اسرائیلی ،امریکی اور یورپی مصنوعات کا بائیکاٹ ہی کر دے تو اس سے صورتحال تبدیل ہونے کی امید ہے کیونکہ بائیکاٹ ہونے پر امریکا اور یورپ کو اربوں ڈالر کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے جسے وہ کسی طوربرداشت نہیں کریں گے۔ لہٰذا وہ اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھائیں گے۔ اسرائیل کے قریبی مسلم ممالک شام' عراق خود اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہیں' مصر کی فوجی حکومت فلسطینیوں کا ساتھ دینے کے بجائے سرنگیں بند کر کے فلسطینیوں کے لیے رابطے کے تمام ذرایع ختم کر چکی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اسرائیل اور حماس پر دیرپا جنگ بندی کے لیے زور دے رہے ہیں۔ جدید ہتھیاروں اور فضائیہ سے محروم حماس اسرائیل کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں، عام نوعیت کے گھریلو ساختہ راکٹوں سے وہ ایک دو فوجیوں کو تو ہلاک کر سکتی ہے مگر اسرائیلی حملوں کو روکنے یا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی مگر اقوام متحدہ اور امریکا حماس کو جنگ کا ذمے دار قرار دے کر اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لاکھوں فلسطینی کیمپوں اور اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں مگر اسرائیل ان کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ ان اسکولوں کی تباہی پر بھی اقوام متحدہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چپ سادھے ہوئے ہے۔ غزہ کا ایک بڑا حصہ نوگو ایریا بن چکا ہے اور فلسطینیوں کے پاس خوراک کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ اگر صورت حال اسی طرح جاری رہی تو خطرہ ہے کہ آیندہ چند روز میں فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد بھوک سے ہلاک ہو جائے گی۔ اسرائیل جنگ بندی کا اعلان تو کرتا ہے مگر کچھ گھنٹوں بعد غزہ پر حملہ کر کے جنگ بندی کو توڑ دیتا ہے۔

عالم اسلام کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے فلسطینی خود کو تنہا اور بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ اسرائیل کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ اقوام متحدہ اور تمام عالمی قوتیں اس کے ساتھ ہیں لہٰذا وہ فلسطینیوں کا جتنا چاہے قتل عام کر لے اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جب چاہتا ہے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر فلسطینیوں پر حملے شروع کردیتا ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی کو متحرک ہونا پڑے گا ورنہ مظلوم فلسطینیوں کا خون یونہی بہتا رہے گا۔

مقبول خبریں