کھانے کا ضیاع

شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈش شامل کی جاتی ہے تا کہ لوگ خوب واہ واہ کریں


شکیل فاروقی May 13, 2025
[email protected]

خوراک ہماری بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر ہمارا جینا محال ہے۔ کھانا خواہ کچھ بھی ہو اور کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو بِن کھائے زندہ رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔دنیا میں قسم قسم کے کھانے موجود ہیں اور وہاں کے لوگ انھیں شوق سے کھاتے ہیں۔

جہاں تک ہمارے پاکستانی کھانوں کا تعلق ہے تو یہ بہت چٹ پٹے اور لذیذ ہوتے ہیں۔ ان میں قورمہ، نہاری اور پلاؤ شامل ہیں لیکن ان میں سب سے مرغوب بریانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ بریانی کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب مغربی ممالک کے لوگ ہمارے کھانوں سے محض اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ ان کے مصالحہ جات انھیں راس نہیں آتے تھے لیکن اب تو حال یہ ہے کہ غیر ملکوں کے لوگ بھی ان کھانوں کا لطف اٹھانے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔

کراچی پاکستانی کھانوں کا مرکز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لذیذ کھانوں کو متعارف کرانے کا سہرا مغل بادشاہوں کے سر ہے۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گھر سے باہر کھانے کو عیب سمجھا جاتا تھا جب کہ اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔ کھانوں کی اتنی ورائٹی دستیاب ہے کہ جس کا کوئی شمار نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کھائے تو کیا کھائے۔ ایک پرانی کہاوت یاد آرہی ہے کہ’’ آدمی پہنے جگ بھاتا اور کھائے من بھاتا۔‘‘ کچھ لوگ زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں جب کہ دوسرے پیدا ہی کھانے کے لیے ہوتے ہیں۔

کھانوں کی لذت کا انحصار ان میں استعمال کیے جانے والے اجزائے ترکیبی پر ہے جن میں کھانے میں استعمال ہونے والا گھی یا تیل بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔آپ نے یہ کہاوت بھی سنی ہوگی کہ گھی پکائے سالنا نام بڑی بہو کا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب باورچی لوگ کھانوں میں استعمال ہونے والی اشیاء کو راز کی طرح چھپاتے تھے۔ اسی طرح سگھڑ خواتین بھی کھانا پکانے کی ترکیبوں کو اس طرح چھپاتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو لیکن جب سے ٹیلی وژن عام ہوا ہے کوئی راز، راز نہیں رہا۔

شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈش شامل کی جاتی ہے تا کہ لوگ خوب واہ واہ کریں۔ ادھر مہمانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جیسے اس کے بعد کبھی کھانا میسر ہی نہیں آئے گا اور وہ اپنی زندگی کا آخری کھانا کھا رہے ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ کھانا اپنی اپنی پلیٹوں میں نکال رہے ہوتے ہیں۔ مقابلہ بازی کی اس فضا میں ہر کوئی سبقت لے جانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سا کھانا ضایع ہوجاتا ہے جو جھوٹا ہونے کے سبب استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ ہمارے معاشرے میں یہ برائی کم ہونے کے بجائے روز بروز زور بڑھتی جارہی ہے۔یہ صورتحال انتہائی قابلِ مذمت ہے۔

دنیا میں اس وقت خوراک کی شدید قلت ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں جب کہ دوسری جانب خوراک کا بے دریغ ضیاع ہورہا ہے۔ حال ہی میں میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کا کروڑوں بار شکر ادا کیا کیونکہ اس نے مجھے کھانے کی بیشمار نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کچرے میں کھانا تلاش کر رہا تھا۔ قریب ہی ایک کتا بھی کچرے کے اُسی ڈھیر میں کھانے کا متلاشی تھا۔

اس پر مجھے وہ واقعہ یاد آرہا ہے جب جرمنی میں کچھ پاکستانی دوست مل کر برلن کے ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئے اور انھوں نے کھانے کا آرڈر دیا جو کہ ان کی ضرورت سے زیادہ تھا جیسا کہ ہم لوگوں کی عادت ہے۔ انھوں نے کھانا کھایا اور باقی کھانا پلیٹ میں چھوڑ کر فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے کھانے کا بل طلب کیا۔ قریب ہی ایک جرمن کھانا کھا رہا تھا اس نے یہ دیکھ کر فوراً پولیس کو اطلاع کردی۔ پولیس آفیسرنے انھیں یہ باور کرایا کہ یہ جرمنی ہے اور یہاں کھانا ضایع کرنے کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ریستوران نے انھیں کھانا ضایع کرنے پر جرمانہ وصول کیا۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ چالیس فی صد کھانا ضایع ہوجاتا ہے اور کسی کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ہمارے یہاں غربت کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور دوسری جانب کھانے کی ایک بہت بڑی مقدار ضایع ہورہی ہے۔ 2024 میں % 25.3 پاکستانی خطے غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے جو کہ اس سے گزشتہ سال کے مقابلہ میں پورے % 7 اضافہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی فوڈ ویسٹ انڈیکس رپورٹ خوراک کے عالمی بحران کی نشاندہی کرتی ہے جس کے مطابق ایک ٹرلین ڈالر کھانا سالانہ ضایع کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں تقریباً 800 ملین افراد بھوک کا شکار ہیں۔

پاکستان میں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھانا ضایع ہونا ایک عام سی بات ہے خصوصاً بوفے میں جس میں لوگ اپنی بھوک سے زیادہ کھانا نکال لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ تاثر عام ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا مہمان نوازی میں شمار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کھانے کی مقدار کو سخاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ میزبان کو تنقید سے بچنے کے لیے زیادہ کھانا پکانا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے یہاں لوگوں میں خوراک کے ضیاع کے ماحول اور معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

سوئیڈن اور جرمنی جیسے ممالک میں اسکول کے بچوں کو شروع ہی سے کھانا ضایع نہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے جسے عوامی مہم کے ذریعہ لاگو کیا جاتا ہے تا کہ عوام الناس میں خوراک کے ضیاع کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا ہو سکے۔ سوئیڈن میں‘‘زیرو ویسٹ’’اقدام کا مقصد بچے ہوئے کھانے کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ہے جس کی وجہ سے سوئیڈن کا شمار دنیا کے سب سے کم خوراک ضایع کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ فرانس میں سوپر مارکیٹس کو غیر فروخت شدہ خوراک کو عطیہ کرنے کی ہدایت ہے جب کہ اٹلی میں خوراک عطیہ کرنے پر ٹیکس پر رعایت ہے۔

جاپان میں شادیوں میں میزبان اپنے مہمانوں کو کھانا ایک مخصوص مقدار میں پیش کرتے ہیں اور بچے ہوئے کھانے کو ضایع کرنے کے بجائے تعظیماً اس کا‘‘ To-go box’’بنا کر تقسیم کرتے ہیں۔

قرآن کریم کی سورت الاعراف میں رزق کے ضیاع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے بڑے واضح احکامات ہیں کہ‘‘کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم ان احکامات پر عمل نہیں کرتے۔

ایک طرف خوراک کی قلت ہے اور دوسری طرف اتنی فراوانی کے باوجود اس کا ضیاع عام ہے، اگر ہمیں ایک دن بھی فاقہ کرنا پڑے یا بھوکا رہنا پڑے تو ہمیں لگ پتا جائے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ کھانا ضایع کریں یا کسی بھوکے کو کھلائیں؟

مقبول خبریں