وزیراعظم شہباز شریف نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دلخراش سانحہ پوری قوم کے لیے عظیم آزمائش تھا،اے پی ایس کے معصوم بچوں، اساتذہ اور عملے کی قربانیاں ہماری قومی یادداشت کا حصہ ہیں،پاکستان کی سر زمین سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہی اس سانحے کا حقیقی انصاف ہے،ریاست، سیکیورٹی ادارے اور عوام متحد ہو کر دہشت گردی و انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں،آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
سولہ دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والا دہشت گرد حملہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا دردناک باب ہے جس نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ معصوم بچوں اور اساتذہ کو جس بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا، اس نے انسانیت کو شرما دیا ۔ اس سانحے نے یہ واضح کر دیا کہ دہشت گردی محض سرحد پار سے آنے والا خطرہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں ہمارے معاشرتی، فکری اور ریاستی ڈھانچے کے اندر بھی پیوست ہو چکی تھیں۔ یہ حملہ ایک طرح سے ریاست کے لیے ایک کھلا پیغام تھا کہ اگر پالیسیوں میں ابہام، دوغلا پن اور وقتی مفادات کو قومی سلامتی پر ترجیح دی جاتی رہی تو اس کی قیمت معصوم جانوں سے ادا کرنی پڑے گی۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور پاکستان کی تاریخ کا وہ اندوہناک باب ہے جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا، ایسا زخم جس کا درد آج بھی قومی شعور میں زندہ ہے۔ دسمبر 2014 کی وہ سیاہ صبح جب معصوم بچوں، ان کے اساتذہ اور اسکول کے عملے کو بے دردی سے نشانہ بنایا گیا، محض ایک تعلیمی ادارے پر حملہ نہیں تھا بلکہ پاکستان کے مستقبل، اس کی اقدار، اس کے خوابوں اور اس کی امیدوں پر کاری ضرب تھی۔ اس سانحے نے یہ حقیقت پوری شدت سے آشکار کی کہ دہشت گردی کسی ایک طبقے، علاقے یا ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ریاست اور قوم کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ اے پی ایس نے نہ صرف قوم کو غمزدہ کیا بلکہ اسے ایک نئی فکری اور عملی سمت بھی دی۔
یہ آزمائش صرف اس دن تک محدود نہیں تھی جب خون سے لتھڑے بستے اور بکھری ہوئی کتابیں دیکھ کر آنکھیں اشکبار ہوئیں، بلکہ یہ آزمائش آج بھی جاری ہے کہ ہم نے اس سانحے سے کیا سیکھا، ہم نے اپنے رویوں، پالیسیوں اور ترجیحات میں کیا تبدیلی لائی اور کیا واقعی ہم دہشت گردی اور انتہاپسندی کے مکمل خاتمے کے لیے سنجیدہ اور یکسو ہیں۔اے پی ایس کے معصوم بچوں کی قربانیاں ہماری قومی یادداشت کا حصہ ہیں۔ یہ یادداشت محض تعزیتی تقاریب یا برسیوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ قومی پالیسی سازی، تعلیمی نصاب، سماجی رویوں اور ریاستی فیصلوں میں جھلکنی چاہیے۔ ان بچوں کے خواب ادھورے رہ گئے، وہ خواب جو ایک پرامن، ترقی یافتہ اور روشن خیال پاکستان سے جڑے تھے۔ ان خوابوں کی تعبیر تب ہی ممکن ہے جب ہم اس ملک کو اس عفریت سے مکمل طور پر پاک کریں جس نے علم، رواداری اور انسانیت کو اپنا ہدف بنایا۔
سانحہ اے پی ایس کا سب سے بڑا سبق یہی تھا کہ دہشت گردی کے معاملے پر کسی قسم کے ابہام، نرمی یا دو رخی پالیسی کی کوئی گنجائش نہیں۔اس سانحے کے بعد قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا، فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا، ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کیے گئے اور دہشت گرد نیٹ ورکس کو کاری ضربیں لگیں۔
ان اقدامات سے یہ تاثر ضرور ملا کہ ریاست سنجیدہ ہے اور اس نے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ سوالات بھی جنم لیتے رہے کہ کیا ہم نے انتہاپسندی کی فکری جڑوں پر اسی شدت سے وار کیا؟ کیا تعلیمی اداروں اور سماجی ڈھانچے میں وہ اصلاحات ہوئیں جو نفرت، تشدد اور عدم برداشت کو جڑ سے اکھاڑ سکیں؟ دہشت گردی محض بندوق اور بارود سے نہیں پھیلتی بلکہ ایک مخصوص سوچ، بیانیے اور ماحول میں پروان چڑھتی ہے، اور جب تک اس ماحول کو تبدیل نہیں کیا جاتا، اس خطرے کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف داخلی محاذ تک محدود نہیں۔ خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال، سرحد پار عوامل، علاقائی سیاست اور عالمی مفادات بھی اس مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں، ہزاروں جانیں گئیں، معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، مگر اس کے باوجود بعض عالمی حلقوں میں پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی۔ سانحہ اے پی ایس ان قربانیوں کی سب سے دردناک مثال ہے جسے عالمی برادری کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ دراصل پوری دنیا کے امن کے لیے ہے، اور اس جنگ میں پاکستان کی کامیابی یا ناکامی کے اثرات عالمی سطح پر محسوس ہوں گے۔
سانحہ اے پی ایس نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ تعلیم کو دہشت گردی کے خلاف سب سے موثر ہتھیار کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جو تنقیدی سوچ، سوال کرنے کی جرات، اور اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرے، انتہاپسندی کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے، اگر ہمارے اسکول اور جامعات محض رٹے بازی اور نمبر دوڑ تک محدود رہیں گے تو ہم ایک ایسی نسل پیدا کریں گے جو آسانی سے گمراہ ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم تعلیم کو انسان دوستی، رواداری اور سماجی ذمے داری کے ساتھ جوڑ دیں تو ہم ایک مضبوط اور پرامن معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
سیکیورٹی اہلکاروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کی ہیں، اور ان کی قربانیاں قومی یادداشت کا حصہ ہیں۔وزیراعظم کا یہ اعلان کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، ایک مضبوط سیاسی عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ مگر تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایسے عزم کو برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے، خاص طور پر جب وقتی حالات بدلتے ہیں، سیاسی ترجیحات تبدیل ہوتی ہیں اور عوامی توجہ کسی اور سمت چلی جاتی ہے۔ سانحہ اے پی ایس کی یاد ہمیں یہ یاد دہانی کراتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی وقتی مہم نہیں بلکہ ایک طویل المدتی جدوجہد ہے جس میں مستقل مزاجی، صبر اور اصولی موقف کی ضرورت ہے۔
یہ سانحہ ہمیں یہ سوال بھی کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم نے بطور معاشرہ تشدد کو معمول سمجھ لیا ہے؟ کیا ہم نے نفرت انگیز زبان، عدم برداشت اور فرقہ وارانہ تعصبات کو نظرانداز کر کے ان کی آبیاری کی؟ اگر ہم واقعی اے پی ایس کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے روزمرہ رویوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی نفرت، معمولی اختلاف پر تشدد کی دھمکیاں، اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے رجحانات اسی انتہاپسندی کے مظاہر ہیں جنھوں نے بڑے سانحات کو جنم دیا۔
سانحہ اے پی ایس نے ہمیں یہ سبق دیا کہ بچوں کے خون سے بڑی کوئی سیاسی یا نظریاتی ترجیح نہیں ہو سکتی۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان سانحات کو محض سالانہ تقاریب، تقاریر اور بیانات تک محدود نہ رکھیں بلکہ انھیں قومی مکالمے کا مستقل حصہ بنائیں۔ نصابِ تعلیم میں سچائی کے ساتھ تاریخ کو شامل کیا جائے۔سانحہ اے پی ایس کی برسی محض ایک رسمی دن نہیں بلکہ ایک اجتماعی احتساب کا موقع ہے۔ یہ دن ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے وعدوں کو پرکھیں، اپنے اقدامات کا جائزہ لیں اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں۔ یہ دن ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ قومیں صرف نعروں سے نہیں بلکہ مسلسل عمل، اصلاح اور خود احتسابی سے آگے بڑھتی ہیں۔ اگر ہم نے اس سانحے کو محض ماضی کا ایک افسوسناک واقعہ سمجھ کر فراموش کر دیا تو یہ ان معصوم جانوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور پاکستان کی تاریخ کا وہ موڑ ہے جس نے ہمیں آئینہ دکھایا۔ اس آئینے میں ہمیں اپنی کمزوریاں بھی نظر آئیں اور اپنی طاقت بھی۔ کمزوری یہ کہ ہم نفرت اور تشدد کو پنپنے دیتے رہے، اور طاقت یہ کہ جب قوم متحد ہوئی تو اس نے دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ بھی دکھایا۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس طاقت کو مستقل بنیادوں پر بروئے کار لاتے ہیں یا نہیں۔ اے پی ایس کے شہدا کی قربانیاں ہم سے یہی تقاضا کرتی ہیں کہ ہم ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کریں جہاں اسکول محفوظ ہوں، بچے بے خوف ہو کر خواب دیکھ سکیں اور اختلاف کے باوجود خون نہ بہے۔ یہی ان معصوم جانوں کے لیے حقیقی خراجِ عقیدت اور یہی اس سانحے کا اصل انصاف ہے۔