بھٹو مودودی ملاقات
مولانا سیاسی جماعت کے امیرتھے اورپالیسی سازبھی چنانچہ قومی سیاسی مسائل پر مجلسوں اور ملاقاتوں میں وہ خود جایا کرتے تھے
میں ایک بزدل پاکستانی ہوں اور اس وقت وطن عزیز کے حالات میں جو خوف و ہراس پیدا کر دیا گیا ہے وہ میرے لیے قابل برداشت نہیں مجھے خوف اور دہشت سے بھرے ہوئے اس جہاں میں نہیں رہنا ہمارے ایک بہت بڑے شاعر شعیب بن عزیز نے یہی کہا ہے کہ یہ جہاں ہو جیسا اس میں اب نہیں رہنا چنانچہ میں اپنے کمزور حافظے کی مدد سے پرانی باتیں یاد کرتا رہتا ہوں بلکہ ان یادوں میں پناہ لیتا ہوں۔
عمران خان' طاہر القادری اور اب حمزہ شہباز اور کل تک نہ جانے اور کون کھیل تماشے اور بازیچۂ اطفال والے اس ملک میں کوئی بھی قسمت آزمائی کر سکتا ہے اس لیے ان اداکاروں سے بچنے کا یہ طریقہ بہت مناسب ہے کہ آپ آج کو چھوڑ کر اپنے آپ کو ماضی میں گم کر دیں۔ اس گمشدگی کا کوئی نہ کوئی بہانہ ملتا ہی رہتا ہے مثلاً جناب آصف زرداری ایک دن کے لیے لاہور آئے تو انھوں نے کئی ملاقاتیں کیں اور لاہوری نہیں بلکہ قومی سیاست میں ہلچل مچا گئے ان میں سے ایک ملاقات جماعت اسلامی سے بھی تھی جس میں جماعت کے موجودہ امیر اور قیّم دونوں شریک تھے۔
اس پر مجھے ایک پرانی ملاقات یاد آئی جو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا مودودی کے درمیان ہوئی تھی۔ یہ زمانہ بھٹو حکومت کے خلاف زبردست عوامی تحریک کا زمانہ تھا۔ تحریک کے خلاف مدد حاصل کرنے کے لیے بھٹو صاحب جو کوششیں کر رہے تھے ان میں چند ملاقاتیں بھی تھیں۔ خبر بنانے والی ملاقات اچھرہ میں مولانا مودودی سے تھی جب ملاقات کا وقت طے ہو گیا تو مولانا نے جمیعت کے ارکان کو پیغام بھجوایا کہ بھٹو صاحب میرے مہمان ہوں گے آپ ان کے خلاف کوئی نازیبا نعرہ بلند نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی نامناسب حرکت کریں گے۔
ادھر سے مطمئن ہو کر مولانا نے اپنے بیٹے حسین مودودی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ اندر گھر کے برآمدے کے سامنے مہمان کا استقبال کریں گے اور ان کو مولانا کے کمرے میں لے آئیں گے۔ یہ کمرہ مولانا کی لائبریری بھی تھی جس کی دیواروں کے ساتھ الماریوں میں کتابیں تھیں اور مولانا نے اس ترتیب کے ساتھ لگا رکھی تھیں کہ اندھیرے میں بھی وہ مطلوبہ کتاب ڈھونڈ سکتے تھے۔ کمرے کے درمیان میں ایک بڑی سی میز تھی جس کی ایک طرف مولانا بیٹھتے تھے اور ان کے قریب ہی لکھنے کی ضرورت کا سامان رکھا رہتا تھا۔ ایک ریڈیو ہوتا تھا جس پر مولانا باقاعدگی کے ساتھ خبریں سنتے تھے۔
ایک بار میں بھی کسی کام سے موجود تھا تو دوپہر ایک بجے مولانا نے ریڈیو آن کیا اور مسکرا کر کہا کہ اب ایک بچہ آئے گا جو روئے گا۔ ریڈیو پر اس وقت جو اشتہار چلتا تھا اس میں یہ بچہ روتا تھا اور پھر اسے کوئی چیز دی جاتی تھی جس کے بعد وہ چپ ہو جاتا تھا اور خبریں شروع ہو جاتی تھیں۔
مولانا جب آخری بار علاج کے لیے امریکا گئے تو انھیں یاد آیا کہ وہ ریڈیو کا بل دے کر نہیں آئے چنانچہ انھوں نے پیغام پر پیغام بھجوائے اور جب بل کی ادائیگی کی تسلی ہو گئی تو انھیں یہ بوجھ ہلکا ہونے سے سکون ملا یہ تھے ہمارے لیڈر بہر کیف بھٹو صاحب آئے تو حسین نے ان کا استقبال کیا اور برآمدے میں کھلنے والے مولانا کے کمرے کا دروازہ کھول کر بھٹو صاحب کو یہ کہہ کر اندر بھجوایا کہ بھٹو صاحب تشریف لے آئے ہیں، مولانا عام مہمانوں کے استقبال کی طرح اپنی نشست سے ذرا سا اٹھے بھٹو صاحب کو خوش آمدید کہا اور انھیں سامنے کی کرسی پر تشریف رکھنے کا کہہ کر خود بھی بیٹھ گئے۔
بھٹو صاحب کے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں محترمہ عابدہ گورمانی۔ مولانا نے ان سے تعارف کرایا ان کے والد نواب مشتاق احمد گورمانی گورنر کا ذکر خیر کیا اور پھر بھٹو صاحب نے اگلے سوال کا جواب خود ہی دیا کہ میں جو کچھ کھاتا پیتا ہوں یہ اسے چیک کرتی ہیں۔ اس ملاقات میں بھٹو صاحب نے پانی طلب کیا تو عابدہ نے بوتل سے پانی نکال کر گلاس میں ڈالا خود چکھا اور پھر گلاس بھٹو صاحب کو دے دیا۔ بھٹو صاحب کو آداب محفل کون سکھا سکتا تھا، انھوں نے احترام کے ساتھ مولانا سے گفتگو کی۔ جماعت کی طرف سے جو مدد ممکن تھی اس کا ذکر کیا اور کمرے سے ہی معزز مہمان کو اچھے الفاظ کے ساتھ رخصت کر دیا۔ حسین مودودی مہمان کو ان کی گاڑی تک لے گئے جو سامنے ہی کھڑی تھی۔ جمعیت کے طلبہ نے احترام کیا لیکن جب بھٹو صاحب کی گاڑی باہر نکلی تو کچھ نعرے سنے گئے۔ اس ملاقات کا پورا حال مجھے یاد نہیں تھا۔ برادرم صفدر چوہدری کی مدد لی گئی ہے جو وہیں مرکزی جماعت میں کام کرتے تھے۔
یہ تھی وقت کے دو لیڈروں کی ملاقات اور نہایت ہی نازک وقت میں۔ سیاست عروج پر تھی اور سیاسی بات کرنی مشکل تھی مگر بڑی شائستگی سے یہ تاریخی ملاقات مکمل ہوئی۔ یہاں ایک اور بے حد دلچسپ بات یاد آ گئی ہے۔
ایوب خان مولانا سے ملنا چاہتے تھے گورنر نواب امیر محمد خان نے مولانا کو ملاقات پر راضی کر لیا چنانچہ مولانا نے کہا کہ میں ان سے خود ملنے جائوں گا انھیں یہاں مرکز جماعت میں نہیں بلوائوں گا چنانچہ گورنر ہائوس لاہور میں یہ ملاقات ہوئی اور کافی دیر تک جاری رہی جب ملاقات ختم ہوئی اور مولانا چلے گئے تو ایوب خان نے نواب صاحب سے کہا کہ میں اپنے آپ کو بڑا ڈکٹیٹر سمجھتا تھا لیکن یہ تو مجھ سے بھی بڑے ڈکٹیٹر تھے۔
قومی سیاست میں لیڈروں کی باہمی ملاقاتیں جاری رہتی ہیں اور یہ بہت ضروری ہوتی ہیں کیونکہ جلسوں جلوسوں میں تقریریں عوامی اور وقتی ضرورت کے تحت ہوا کرتی ہیں چنانچہ جب قومی مسئلے سنجیدہ ہو جاتے ہیں تو وہ نجی ملاقاتوں میں ہی زیر بحث آ سکتے ہیں۔ مولانا ایک سیاسی جماعت کے امیر تھے اور پالیسی ساز بھی چنانچہ قومی سیاسی مسائل پر مجلسوں اور ملاقاتوں میں وہ خود جایا کرتے تھے۔ میں نے مولانا کو کئی سیاسی اجتماعات میں آتے جاتے دیکھا۔ وہ سفید شیروانی پسند کرتے تھے مگر واقعی سفید ایک بار جب وہ تیار ہو کر جانے لگے تو دیکھا کہ سفید شیروانی پر ایک ہلکا سا داغ ہے جب تک دوسری بے داغ شیروانی کا بندوبست نہیں ہوا 'مولانا باہر نہیں نکلے۔
ایک دفعہ جب مولانا مسجد نیلا گنبد میں نماز کی ادائیگی اور کسی اجلاس سے فارغ ہو کر باہر آئے اور میں نے ان کے جوتے ان کے سامنے رکھے تو مولانا نے مسکرا کر کہا کہ عزیزم ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے۔ جوتے ہم خود ہی پہنتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بہت یادیں ہیں مگر میرے پاس مولانا کے جوتے نہیں ہیں۔ صرف اس عظمت کی یادیں ہیں ہاں ایک اور بات یاد آ گئی ہے کہ ایک بار میں نے عرض کیا کہ مولانا کوئی فالتو قلم ہو تو عنایت فرمائیں۔ جواب ملا کہ میں فالتو چیزیں نہیں رکھتا۔ دیکھوں گا کوئی مل گیا تو تمہارا ہوا۔