وہ مریخ اور ہم چوک پر
ہندوستان اور پاکستان نے1947 میں محض ایک دن کے فرق سے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی تھی لیکن آج ہندوستان ہم سے بہت۔۔۔
بدھ کا دن، 24 نومبر کی تاریخ اور 2014 کا سال ہے۔ چھ بجکر پینتالیس منٹ ہوئے ہیں ۔ اسکول کے بچوں کو آج ایک گھنٹہ پہلے آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسکولوں میں ٹی وی اسکرین نصب ہیں' ایک منظر ابھرتا ہے ۔ مریخ کی طرف سفر کرنے والا ہندوستانی راکٹ ' منگل یان' سرخ سیارے کے مدار میں داخل ہورہا ہے ۔ اس لمحے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ایشیا میں جاری خلائی دوڑ میں ہندوستان سب سے آگے نکل گیا ۔ جاپان اور چین اب تک یہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے ہیں ۔
اس کامیابی کے ساتھ اسے ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہوا ہے کہ اب تک امریکا سمیت دنیا کا کوئی ملک پہلی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا ۔ صرف امریکا ' روس اور یورپ ہی مریخ تک پہنچ سکے ہیں ۔ اس خلائی جہاز نے 10 ماہ کے دوران کروڑوں میل کا سفر طے کیا اور اپنی منزل تک پہنچا ۔ ہندوستان کی نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی نے بڑے فخر کے ساتھ اس کامیابی کا مشاہدہ بنگلور کے خلائی مرکز میں کیا ۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کے ذرایع ابلاغ نے اس اہم واقعے کی بھرپور خبریں شایع کیں ۔ ہمارے ملک میں بھی کئی اخبارات نے کالم لکھے اور اس کامیابی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ۔ اس امر کو بہت اہمیت دی گئی کہ اس خلائی جہاز پر صرف سات کروڑ چالیس لاکھ ڈالر خرچ ہوئے ۔ پاکستانی روپے کی قدر کے حساب سے اس کی مالیت 7ارب 40 کروڑ جب کہ ہندوستانی روپے کے لحاظ سے صرف 5 ارب 70 کروڑ روپے بنتی ہے ۔
پوری دنیا میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جو رقم اس مشن پر خرچ کی گئی اس سے زیادہ لاگت ہالی وڈ کی سائنسی فلم گریوٹی(Gravity) پر آئی ہے اور ہندوستانی فلم R-One پر اس مشن سے کچھ ہی کم لاگت آئی ہے ۔ اس کے مقابلے میں ناسا کی جانب سے 5 نومبر 2013 کو جو خلائی مشن مریخ کے لیے روانہ کیا گیا تھا اس پر 671 ملین یعنی 67 کروڑ 10 لاکھ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ ایک ایشیائی ملک نے جو کام 7ارب روپے میں کیا وہ امریکا 67 ارب روپے میں کرسکا ۔ تب ہی تو یہ کہا جارہا ہے کہ 21ویں صدی امریکا اور یورپ کی نہیں ' ایشیا کی صدی ہوگی ۔
ہندوستان اور پاکستان نے1947 میں محض ایک دن کے فرق سے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی تھی لیکن آج ہندوستان ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ یہ بات تلخ نہیں ہے کہ ہندوستان اتنا آگے کیوں بڑھ گیا'اصل تلخ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم آگے کیوں نہ بڑھ سکے؟ میں جب اس سوال پر غور کررہی تھی تو میرے ذہن میں ہندوستانی وزیر اعظم کی وہ تصویر ابھری جب وہ بنگلور کے خلائی مرکز میں موجود تھے اور سرخ رنگ کی نہرو واسکٹ پہنے ہوئے تھے ۔ ان کا تعلق انتہائی دائیں بازو والی سیاسی جماعت سے ہے ۔ سرخ رنگ سے دائیں بازو والوں کو جنم جنم کا بیر ہے اس حوالے سے ان کی طرف سے سرخ رنگ کا انتخاب حیرت میں ڈالتا ہے لیکن ہمیں شاید زیادہ حیران نہیں ہونا چاہیے ' مریخ کو سرخ ستارہ کہا جاتا ہے اور یہ خلائی مشن اسی سیارے سے تعلق تھا لیکن نہرو کٹ واسکٹ کا مفہوم تسلسل ہے ۔ مریخ کا مشن کانگریس کی مخلوط حکومت نے شروع کیا تھا ' اور پنڈت نہرو اس جماعت کی علامت ہیں ۔ یہی وہ نقطہ ہے جس میں ترقی کے کئی رمز پنہاں ہیں۔
سیاسی اور جمہوری عمل کا تسلسل جدید دنیا میں آگے بڑھنے اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ آمرانہ نظام کے تسلسل سے بھی ترقی کی جاسکتی ہے لیکن وہ دیرپا اور پائیدار نہیں ہوتی ۔ کون سا ملک ہے جہاں طویل آمریتوں کے باعث خانہ جنگی اور تباہی نہیں ہوئی اور ساری ترقی دھری کی دھری رہ گئی ۔ ہم اپنی ہر ناکامی کو کسی سازش کا نتیجہ کہتے ہیں نتیجتاً ہم اپنی غلطی اور کوتاہی تلاش نہیں کرپاتے اور اصلاح کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
بار بار سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایک ساتھ آزاد ہونے والے دو ملکوں میں سے ایک ملک دوسرے سے اتنا آگے کیوں نکل گیا ؟ یہ سوال کسی سے پوچھئے تو جواب ملے گا کہ ساری دنیا ہمارے خلاف ہے ' وہ ہمیں ترقی کرتے دیکھنا نہیں چاہتی ' سب مل کر ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے گا کہ ان دو ملکوں کے درمیان فرق صرف اس کا تھا کہ وہاں جمہوریت تھی اور ہمارے اوپر آمریت براہ راست یا بالواسطہ طور پر مسلط رہی تو یہ توجیح اور تشریح زیادہ تر لوگوں کو پسند نہیں آئے گی ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اس حقیقت کوبالآخر تسلیم کرنا ہی پڑے گا ۔ یہ اس وقت ہوگا جب حالات کے ہاتھوں ہم ایسا کرنے کے لیے مجبور اور بے بس ہوجائینگے۔
1947 میں جب بر صغیر تقسیم ہوا تو پاکستان نسبتاً زیادہ مسائل سے دوچار تھا ۔ ہندوستان کی صورتحال بھی مثالی نہیں تھی۔ آزادی کے بعد اس کا شمار غریب ترین ملکوں میں کیا جاتا تھا ۔ اب وہ انتہائی غربت والے ملکوں کی فہرست سے نکل کر تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود آج بھی وہاں 40 کروڑ افراد غریب ہیں۔ تاہم' غربت کم ہو رہی ہے اور متوسط طبقے کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ غربت کے باعث ہندوستان طویل عرصے تک انتشارکی کیفیت میں رہا ۔ جنوب اور شمال کا جھگڑا شدید تھا ' علیحدگی کی تحریکیں عروج پر تھیں اور ملک کے پرچم اور آئین کو بہت سے گروہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔
غربت کی وجہ سے جرائم تھے ' بد عنوانی اور رشوت ستانی ' اقربا پروری اور سفارش کا کلچر تھا ۔ یہ مسائل آج بھی ہیں اور آیندہ بھی کافی عرصے تک باقی رہیں گے ۔ ان تمام منفی عوامل کے باوجود ہندوستان نے جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کا راستہ اختیار کیا ۔ جمہوری حکومتوں نے بہترین کارکردگی نہیں دکھائی لیکن رفتہ رفتہ ادارے مستحکم ہوتے گئے ' قانون کی حکمرانی کو تسلیم کیا جانے لگا ' انتخابات کے ذریعے عوام نے سیاسی جماعتوں کا بڑی بے دردی سے احتساب کیا ۔ تمام تر خامیوں کے باوجود جمہوریت کا تسلسل جاری رہا جس کے باعث اس ملک میں بتدریج معاشی اور سیاسی استحکام پیدا ہوگیا۔
تلخ نوائی کے لیے معاف کرتے ہوئے یہ سنئے کہ آزادی کے بعد کے ایک عبوری مرحلے میں ہم ہندوستان کے مقابلے میں کچھ زیادہ مشکل میں تھے لیکن حقیقتاً ہمارے مثبت پہلو ہندوستان سے زیادہ تھے ۔ ہماری آبادی کہیں کم تھی ' ہمارے یہاں لوگ بھوک سے نہیں مرا کرتے تھے ۔ ہمیں نسبتاً ایک چھوٹے سے خطے میں فطرت نے ان تمام وسائل سے نوازا تھا جو امریکا اور ہندوستان میں تھے ۔ پہاڑ ' دریا ' ریگزار ' مرغزار ' سمندر' جھیلیں ' برف پوش چوٹیاں ' گلیشیئر' سرد ترین اور گرم ترین علاقے' چاروں موسم ' رنگ برنگی ثقافتیں ' ہزاروں برس پرانی تہذیبیں ' خوبصورت زبانیں ' بولیاں ' ثقافت ' لوک ورثہ ' فنون لطیفہ ' محنت کش عوام ' دن رات مشقت کرنے والے کسان 'پڑھے لکھے لوگوں کا ایک موثر طبقہ ' دنیا کا سب سے وسیع اور بہترین نہری نظام ' ٹیگور ' نذرالاسلام ' بھٹائی ' وارث شاہ ' بابا فرید ' خوش حال خان خٹک جیسے عظیم شاعر ' سیاسی طور پر باشعور کارکن ' کیا کیا گنوایا جائے؟ یہ تو صرف چند حوالے ہیں۔
دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں' کتنے ملک ہیں جہاں یہ سب عوامل ایک ساتھ موجود ہیں ؟ایسے ملکوں کی تعداد چند درجن سے زیادہ نہیں ہوگی ۔ جب ہم آزاد ہوئے تھے تب بھی اور آج 68 سال بعد بھی ہمیں قدرتی اور انسانی وسائل کے حوالے سے دنیا کے بہت سے ملکوں پر سبقت حاصل ہے ۔ ہم اس کا فائدہ کیوں نہ اٹھاسکے؟ اس لیے کہ ہم نے جمہوریت سے گریز کا جو راستہ اختیار کیا وہ ابتداء سے ہی غلط تھا ۔ پے در پے آمریتوں نے نو آزاد پاکستان پر کون سے ستم تھے جو نہیں ڈھائے؟ آج جب تمام سانحات اور المیے جھیلنے کے بعد بہ مشکل جمہوری تسلسل نے ابتدائی مرحلہ طے کیا ہے تو اس میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ جمہوریت بد ترین نظام ہوگا لیکن کیا ' کیا جائے کہ یہ واحد قابل عمل نظام ہے ۔ بہترین آمریت سے بد ترین جمہوریت کہیں بہتر ہوتی ہے۔
آمریت وقت کے ساتھ مزید بد تر اور جمہوریت بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس سے سیاسی استحکام آتا ہے ۔ افراد کی جگہ ادارے' انفرادی قیادت کی جگہ اجتماعی قیادت لے لیتی ہے ' انتخابی احتساب کی چھلنی رفتہ رفتہ سیاست کو صاف کردیتی ہے اور جمہوری تسلسل ریاستی پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بناتا ہے۔ اس حقیقت کا ایک مظہر یہ ہے کہ آج ہندوستانی خلائی جہاز مریخ پر ہے اور ہم اسلام آباد کے ایک چوک پر کھڑے پارلیمنٹ کو للکار رہے ہیں ' آئین اور قانون کی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں ۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت اور وزیر اعظم کی روزانہ کی بنیاد پر کردار کشی ہورہی ہے ' الزامات کی بھرمار ہے لیکن ثبوت ایک نہیں۔
سوچنا تو ہوگا کہ کونسی خوبیاں ہمارے پڑوسیوں میں ہیں جو ہم میں نہیں ۔ کونسی خرابیاں ہیں جو ہم میں ہیں اور ان میں نہیں ؟ مسئلہ محض انتخاب کا ہے ۔ انھوں نے جمہوریت کو منتخب کیا اور ہم نے اُسے بے توقیر کیا ۔ وہ آگے بڑھتے گئے ہم اپنی غلطیوں کو قبول کرنے کے بجائے دوسروں کو موردِ الزام ٹہراتے رہے ۔ چوراہوں پر شور مچانے سے ہمیں کچھ نہیں مل سکتا ۔یہ انتہائی مہلک سوچ او ر روش ہے جو ہمیں بدلنی ہوگی۔