(پاکستان ایک نظر میں) - گروکی دھرتی

آصف محمود  جمعـء 7 نومبر 2014
پاکستان کی دھرتی ہمارے لئے ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے لئے مکہ اور مدینہ ہیں۔

پاکستان کی دھرتی ہمارے لئے ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے لئے مکہ اور مدینہ ہیں۔

ہم لوگ لائل پور میں رہتے تھے۔جب بٹوارہ ہوا اس وقت میری عمرکوئی آٹھ سال ہوگی مجھ سے چھوٹے دوبہن بھائی اورایک بھائی بڑاتھا۔ میرے باپونے بہت کوشش کی کہ ہم یہاں رہ جائیں۔ یہاں ہمیں کوئی خطرہ بھی نہیں تھا لیکن خاندان کے دوسرے لوگ نہیں مان رہے تھے۔ہم بچے اپنے بزرگوں کے چہروں کو دیکھتے،گھرمیں ایک افراتفری کا عالم تھا،لیکن ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخرہوکیا رہا ہے۔ بس اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم لوگ کہیں جانے والے ہیں اورپھرہم لوگوں نے سامان سمیٹا اور ہندوستان چلے گئے۔

یہ بات کرتے ہوئے پرم جیت کورکی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ پرم جیت کور سے میری ملاقات دربارصاحب کرتارپورمیں ہوئی۔ وہ اپنے خاوند سکھویندرسنگھ کیساتھ گرونانک دیو جی کا جنم دن منانے پاکستان آئی تھیں۔ جنم استھان ننکانہ صاحب میں مذہبی رسومات اداکرنے کے بعد بہت سے سکھ خاندانوں کیساتھ یہ لوگ بھی کرتارپوردربارصاحب پہنچے ۔ دربارصاحب میں گورونانک دیو جی کی قبر اور سمادھی بنائی گئی ہے۔ روایت کے مطابق مسلمان بھی گورونانک جی کی بہت عزت اوراحترام کرتے تھے اورانہیں بزرگ صوفی یا پیرمانتے تھے جبکہ ہندوبھی ان کے عقیدت مند تھے۔ واضع رہے کہ گرونانک دیو جی خود بھی ہندو تھے اور ان کے عقیدت مندوں نے ان کو سکھ کا لقب بہت بعد میں دیا۔

جب گرونانک دیو جوتی جوت سمائے ( ان کا انتقال ہوا) تومسلمان اورگرو کے عقیدت مندوں میں ان کی تدفین پرتنازعہ کھڑاہوگیا ،مسلمانوں کا موقف تھا کہ گوروجی مسلمان تھے اس لئے ان کی قبربنائی جائیگی جبکہ ان کے عقیدت مندوں کا کہنا تھا کہ ان کی سمادھی بنائی جائیگی۔ روایت کے مطابق اس علاقے میں دریائے راوی بہتا تھاجو اب دورجاچکا ہے۔ یہ جھگڑاجاری تھا کہ گرونانک دیو جی کی جسم دریائے روای کی لہروں کی نذرہوگیا صرف ایک چادرجو گوروجی کے جسم پرڈالی گئی تھی وہ ملی اوراس کے ساتھ دوپھول تھے، آدھی چادراورایک پھول لیکرمسلمانوں نے قبربنادی جبکہ گروکے عقیدت مندوں نے ایک پھول اورآدھی چادرکی سمادھی بنادی۔ اب بھی یہاں مسلمان اورسکھ دونوں آتے ہیں۔ سکھ یہاں پہلے قبرپرجاتے اور پھر سمادھی پرماتھا ٹیکتے ہیں۔

پاکستان کی دھرتی سکھوں کے لئے اس لئے مقدس ہے کہ یہاں ان کے سب سے پہلے گورو نانک دیو جی کا جنم ہوا اوراسی سرزمین پرہی وہ جوتی جوت سمائے یعنی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ننکانہ صاحب گورو نانک دیو جی کا جنم استھان ہے جبکہ کرتارپورمیں ان کی قبراورسمادھی ،یہی وجہ ہے کھ بھارت سمیت دنیا بھرسے سکھ یاتری اپنے گورو کے جنم دن اور برسی پر پاکستان آتے ہیں اوراس دھرتی کومقدس مانتے ہیں۔

اس جگہ کو دربارصاحب کہا جاتا ہے جہاں ایک خوبصورت گوردوارہ قائم ہے، جس کی سفید اورخوبصورت عمارت کئی میل دورسے دکھائی دیتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک بم 1965ء کی جنگ کے دوران اس گردوارے پر گرا تھا، لیکن وہ پھٹ نہیں سکا۔مرکزی داخلی راستے کے باہر جس جگہ یہ بم گرا تھا، اس سے کچھ فاصلے پر ایک چوکی نصب ہے۔ اس جگہ ایک تختی نصب ہے جس پر تحریر ہے کہ ’واہے گروجی کا معجزہ‘۔ واہے کا لفظ سکھوں میں اعلٰی ترین ہستی کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔

ارے میں تو بھول ہی گیا کہ میں پرم جیت کورکی بات کررہا تھا، انہوں نے بتایا کہ ان کا گاؤں اس کرتارپورسے بالکل سامنے بارڈر کے اس پار ہے ،بھارتی سرحدیہاں سے صرف ایک ،ڈیڑھ کلومیٹردورہے۔ بھارتی علاقے میں ایک درشن پوائنٹ بنایا گیا ہے جہاں سکھ کھڑے ہوکردربارصاحب کی زیارت کرتے ہیں، اب بھی سکھوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آتارہتا ہے کہ دونوں ملک اگرچندفٹ کا راستہ بنادیں توبھارتی سکھ یہاں حاضری دینے کے لئے آسکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں اس تجویزپرعمل درآمد ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے۔ پرم جیت کورکے خاوند سکھویندرسنگھ کا کہنا تھا کہ ان کی بڑی خواہش ہے کہ وہ اپنی جنم بھومی ( جائے پیدائش ) کو دیکھیں اورآج گروجی نے ان کی یہ تمنا پوری کردی ہے وہ لائل پورموجودہ فیصل آباد میں اپنا آبائی گھربار بھی دیکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے حکومت سے درخواست بھی کی ہے ،اگرانہیں اجازت مل گئی تووہ اپنا گھرباراورگاؤں ضروردیکھیں گے۔

ستر،اسی سالہ اس جوڑے نے یہ بھی بتایا کہ دونوں ملکوں کے حالات دیکھ کران کا دل کڑھتا رہتا ہے۔ پاکستان کی دھرتی ان کے لئے ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے لئے مکہ اور مدینہ ہیں، لیکن یہاں ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات سن کردکھ ہوتا ہے کہ ان کے گروکی دھرتی پرخون بہایا جارہا ہے۔ کا ش کہ یہاں بھی امن و شانتی قائم ہو تاکہ ہم بھی کسی ڈرو خوف کے بغیر آزادانہ طریقے سے یہاں آجا سکیں ۔اس بھارتی سکھ جوڑے کیساتھ بہت ساوقت گزارنے کے بعد میں نے واپسی کی راہ لی کیونکہ سورج ڈھل رہا تھا اورہمیں رات ہونے سے پہلے واپس لاہور پہنچنا تھا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2000 سے شعبہ صحافت جبکہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے اِس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔