’’بغاوت‘‘ کر دیں۔۔۔!

شمائلہ شفیع  پير 23 فروری 2015
روزانہ کے معمولات اتنے بے لچک بھی نہیں۔ فوٹو: فائل

روزانہ کے معمولات اتنے بے لچک بھی نہیں۔ فوٹو: فائل

مشینی دور کی تیز رفتاری میں ہمیں کبھی خود پر بھی کسی مشین کا سا گمان ہوتا ہے۔ ذرا جائزہ لیں کہ کہیں ہم روز ایک جیسی زند گی تو نہیں گزار رہے۔

ملازمت پیشہ افراد تو لگے بندھے روٹین کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ صبح کو اٹھنا، دفتر کی تیاری، دفتر میں وہی کام اور شام میں ایک جیسے ہی راستوں سے گزر کر گھر لوٹنا، کھانا کھانا، ٹی وی دیکھنا اور پھر سے دوسرے دن کی تیاری۔۔۔ خاتون خانہ کے معمولات کا تو کیا ہی کہنا، روز کے نہ ختم ہونے والے ایک جیسے کام۔۔۔ صبح کا ناشتا، گھر کی صفائی، دوپہر کا کھانا، شام کا کھانا۔۔۔ آخر اکتا ہٹ نہ ہو تو اور کیا ہو۔۔۔ جب زند گی ایک ہی جیسہ رفتار سے گزرنے لگتی ہے، تو آپ محسوس کرتی ہیں کہ جیسے یہ زند گی یوں ہی ختم ہو جائے گی، آپ مایوس ہو نے لگتی ہیں اور یوں آہستہ آہستہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ آپ کسی چیز میں دل چسپی محسوس نہیں کرتیں خود کو بیمار محسوس کرتی ہیں۔ اطمینان کا احساس جا تا رہتا ہے اور ایک نہ ختم ہو نے والی مایوسی آ پ کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔۔۔

یہ حقیقت ہے کہ بعض لوگ ایک جیسی زندگی گزارنے کے اتنے عادی ہو جا تے ہیں کہ وہ ذرا بھی معموملات میں تبدیلی ہو نے پر بے چینی محسوس کرتے ہیں، لیکن یہ بات اب تحقیق سے بھی ثابت ہو چکی ہے کہ زند گی کے معموملات میں تبدیلی انسانی ذہن پر خوش گوار اثرات مرتب کرتی ہے۔ کبھی کبھی ’’باغی‘‘ ہونا بھی آپ پر خوش گوار اثر ڈالتا ہے۔ یہاںبات ہو رہی ہے اپنے معمولات زندگی میں تھوڑی سی تبدیلی کی۔

آئیے، ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم کس طرح اپنے معمولات میں تبدیلی کر کے خوش رہ سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی روٹین میں تبدیلی چاہتی ہیں، تو ہفتے بھر کے کام اور روز کے معمولات آپ کے ذہن میں ہونے چاہئیں کہ اس دن آپ کو فلاں کام کرنا ہے۔

جاگنے اور سونے کے اوقات کار

بعض خواتین صبح اٹھنے میں خاصی کاہل ہوتی ہیں۔۔۔ صبح اٹھنا انہیں ایک مصیبت ہی لگتا ہے۔ الارم کی آواز سنتے ہی ذہن پر ایک بوجھ پڑ جا تا ہے اور دل چاہتا ہے کہ کاش تھوڑی دیر اور سونے کو مل جا تا۔ اللہ، اللہ کر کے اٹھ جاتی ہیں۔۔۔ اٹھنے کے بعد سونے والوں کو رشک بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہ شاید صبح دیر تک سونا ہی سب سے بڑا عیش ہے۔

گھبرائیں نہیں اب ذرا دل تھام لیں، کیوںکہ یہاں آپ اپنی پہلی بغاوت کر سکتی ہیں اور کبھی کبھی صبح دیر سے اٹھنے کی بھی عیاشی کر سکتی ہیں۔ وہ کیسے؟ اس میں آپ اپنے اہل خانہ کی مدد لے سکتی ہیں، یعنی کسی دن صبح ناشتے کی ذمہ داری کسی دوسرے کی لگا سکتی ہیں اور یہ کام آپ اتوار کے دن کر سکتی ہیں، کیوں کہ اس دن عموماً بچوں اور شوہر کی چھٹی ہوتی ہے۔ یا آپ باہر سے ناشتا منگوالیں۔ اس طرح ہفتے میں ایک دن آپ سونے کا شوق پورا کر سکتی ہیں اور جب آپ نیند پو ری کر کے اٹھیں گی، تو خود کو بہت تازہ دم محسوس کریں گی۔ جہاں تک رات سونے کی بات ہے، تو ویسے تو رات کی نیند صحت پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے، لیکن ہم آج کچھ معمول سے ہٹ کر کر رہے ہیں تو کبھی کبھی رت جگا کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

نت نئے ذائقے کھوجیں

کبھی کبھی ہم ایک جیسا کھانا کھا کر بھی اکتا جاتے ہیں اور خاتون خانہ تو ویسے ہی باورچی خانے کی ملکہ ہو تی ہے، تو کبھی کبھی آپ مختلف کھانوں کی تر کیبیں آزما کر بھی نہ صرف تبدیلی لا سکتی ہیں، بلکہ شوہر کا بھی دل جیت سکتی ہیں۔ بعض خواتین کوئی نئی چیز پکانے سے ڈرتی ہیں کہ کہیں خراب نہ ہو جائیے یا اچھا نہیں بنا تو کیا ہو گا۔ اب یہاں تھوڑا سا جوکھم مول لیں اور کوئی بھی چیز جو آپ کو لگے کہ آپ بنا سکتی ہیں، تو دیر نہ کیجیے،کھانا ایک بار خراب بنے گا لیکن اگلی بار آ پ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ اسے کیسے بہتر بنانا ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کچھ نیا سیکھ پا ئیں گی، بلکہ نت نئی چیزوں کو آزمانے سے آپ کے اعتماد میں بھی اضا فہ ہو گا اور آپ نئی تو انا ئی محسوس کریں گی۔

در ودیوار سنواریں

گھر وہ پر سکون گوشہ ہو تا ہے، جو خاتون خانہ کے سلیقے کامنہ بولتا ثبوت ہو تا ہے، کیوں کہ سب سے پہلی نظر گھر پر ہی پڑتی ہے اور اس ہی سے خا تون خانہ کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے، یقیناً آپ گھر کی صفائی ستھرائی کا بہت خیال رکھتی ہوں گی۔ اب ذرا اس میں تھوڑی سی تبدیلی کریں یعنی آپ گھر کی سیٹنگ بدلتی رہیں۔ اس سے بھی ایک خوش گوار احسا س ہوتا ہے یعنی آپ صوفوں کی سیٹنگ بدل سکتی ہیں۔یا ایسی اشیا جو بہ آسانی اِدھر سے اُدھر کی جا سکے اور جن کی جگہ تبدیلی سے آپ کو کمرے میں نئے پن کا احساس بھی ہو۔

کبھی خود سے بھی ملیں!

ہم بعض دفعہ اس لیے بھی یک سانیت کا شکار ہو جاتے ہیں کہ دن بھر کے کام کے بعد ہمارے پا س اپنے لیے ہی وقت نہیں بچتا۔ اس لیے کوشش کریں کہ اپنے معمولات ایسے رکھیں کہ آپ کے پا س بھی وقت بچے۔ اس وقت میں آپ وہ کام سرانجام دے سکتی ہیں، جسے آپ کر کے خوشی محسوس کرتی ہوں۔

بچہ بن جائیں

بعض مائیں اپنے بچوں کو ہی وقت نہیں دے پا تی اور اتنا مصروف ان کا شیڈول ہو تا ہے کہ بچوں کو ذرا ذرا دیر میں اپنی ماں کو پورے گھر میں ڈھنونڈنا پڑتا ہے اور مائیں کبھی تو انہیں باورچی خانے کے مسالوں میں الجھی نظر آتی ہیں اور کبھی کپڑوں سے نبردآزما۔۔۔ تھوڑا وقت اپنے بچوں کو بھی دیں۔ آپ ان کے ساتھ چھوٹے موٹے کھیل کھیل سکتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ بچہ بن جانے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ تھوڑی دیر بچہ بن کر خود کو آج کی پریشانیوں سے دور کر کے آپ کو اندر سے خوشی کا احساس ہوگا۔

’’قیدی شوق‘‘ آزاد کریں

خواتین عموماً شادی کے بعد اپنی ان خواہشات کو بھی مار دیتی ہیں، جو انہیںدل سے خوش رکھتی ہیں، جیسے شادی سے پہلے لڑکیاں چٹ پٹی چیزیں کھانے کا شوق خوب پورا کرتی ہیں، لیکن شادی کے بعد انہیں لگتا ہے کہ جیسے یہ سب لڑکیوں کے شوق ہیںاور اب وہ ایسی کچی عمر کی لڑکی نہیں۔ اب اگر وہ یہ سب ترک نہیں کریں گی، تو انہیں سسرال میں طعنے ملیں گے۔ اگر آپ بھی ایسی سوچ رکھتی ہیں، تو یہ بالکل غلط ہے۔ اپنی جائز خواہشات کو بھی چھوڑ دینا دھیرے دھیرے انسان کی زند گی سے اس کی خوشی کو چھین لیتی ہے، تو آپ بھی اگر ان چیزوں کی شوقین ہیں تو اس سے دور نہ ہوں۔ ہمیں یقین ہے معمول سے کچھ ہٹ کر کرنے سے آپ خود کو نہ صرف ہلکا پھلکا محسوس کریں گی، بلکہ اپنے روزمرہ کے کام بھی خوش دلی سے کر پا ئیں گی، تو کبھی کبھی معمول سے ہٹ کر کرنے سے بھی آپ خوش رہ سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔