عالمی یومِ خواتین

اس دن کو منانے کا مقصد خود صنفِ نازک میں اس شعور کی بیداری ہے کہ عورت ہونا باعث عار نہیں بلکہ صد افتخار ہے۔


مہرین فاطمہ March 08, 2015
اس دن کو منانے کا مقصد خود صنفِ نازک میں اس شعور کی بیداری ہے کہ عورت ہونا باعث عار نہیں بلکہ صد افتخار ہے۔ فوٹو شٹر اسٹاک

8 مارچ عالمی یومِ خواتین، خواتین کے مسائل اور اُن کے حل کے لیے مختص دن ہے۔ ایک صدی قبل یہ دن سب سے پہلے آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئیٹزرلینڈ میں منایا گیا۔ ابتداء میں یہ دن کام کرنے والی خواتین کو روزگار کی فراہمی اور ترقی کے لیے یکساں مواقع و حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد سے منسوب تھا۔

مگر آج ایک صدی بعد معاملہ مختلف ہے۔ اِس دن کو بین الاقوامی سطح پر منانے کا عمومی مقصد انسانی معاشرے اور خود صنفِ نازک میں اس شعور کی بیداری ہے کہ عورت ہونا باعث عار نہیں بلکہ صد افتخار ہے۔

جدید تحریکِ نسواں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ہر سال عورت پر تشدد، جسمانی و نفسیاتی استحصال، غضب شدہ حقوق اور صنفی عصبیت کا نگر نگر واویلا کرتی ہے۔ عظیم الشان اور مہنگے ترین ہوٹلوں میں پُرتّکلُف سیمینارز کا انعقاد، اخبارات میں رنگین ضمیموں کی اشاعت، کانفرنسوں اور سمپوزیم میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر سے ہر سال نئی قراردادوں کے لیے سفارشات کا پیش کیے جانا اس عالمی دن کی لاحاصل روایات و رسومات بن گئی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اِس دن کی عالمی سطح پر پذیرائی کے پیچھے کئی مذموم عزائم و مخفی مقاصد اور دیدہ و نادیدہ سازشیں پنہاں ہیں، مگر اس دورِ خرافات میں خواتین کے معاشرتی کردار کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے اس دن کی افادیت کو جھٹلانا سراسر ہٹ دھرمی اور انا پرستی پر مبنی سوچ کی غماض ہے۔

آج دنیا بھر کی خواتین متحد و متجسم ہوکر خود پر لگائے صنفِ نازک کا ٹیگ اتار کر اپنے ضبط شُدہ حقوق کی بحالی کے لیے جرات مندانہ آواز بلند کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان اور اِس جیسے سماجی بدحالی سے دوچار ممالک میں فی زمانہ خواتین چار دیواری کے اندر اور باہر یکساں استحصال کا شکار ہیں۔ بات معمولاتِ زندگی میں صنفی عدم مساوات سے کہیں بڑھ کر اب جسمانی و جنسی تشدد، اغواء، آبرو ریزی، خود کُشی پر اُکسانا، بے راہ روی و بے غیرتی کے الزام میں قتل اور ایسے کتنے مصائب و آلام سے آگے جا پہنچی ہے۔ امسال اقوامِ متحدہ کی جانب سے عالمی یومِ خواتین 2015 کے لیے موضوع ''empowering women, empowering humanity'' تجویز کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ موضوع گذشتہ برس کے موضوع ''equality for women in progress for all'' میں الفاظ کے الٹ پھیر سے زیادہ نہیں۔

اِس معاشرے کے لیے دعوت فکر یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے ان مسائل کی نشان دہی، اُن کے سّدِباب کے لیے سفارشات اور پھر اقدامات کو مختلف فورمز پر زیرِ بحث لایا جانا زیاں و رائگاں کیوں جاتا ہے؟ وہ کیا وجوہات ہیں کہ عورت کی مظلومیت کا تماشا بھی بنایا جاتا ہے، اس کے نالہ و فُغاں کا چرچا بھی کیا جاتا ہے پھر ہر برس، بغرضِ تبدیلی نعرہِ تجدیدِ پیماں کا غُلغُلہ بھی شورمچاتا ہے۔ پھر یکسر یہ تمام صدائیں سراب سے جنم لے کر سراب میں ہی کھوجاتی ہیں۔ کیا ہم پرلازم نہیں کہ ہم اُن مُحرکات کا تنقیدی جائزہ لیں جو اُن اقدامات کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیوں ذرائع ابلاغ نے عورت کو اِس طرح پیش کیا ہے کہ معاشرے کے لاشعور میں یہ امر مستحکم ہوگیا ہے کہ عورت مرد کے آگے بے بس اور ناکام و نامراد ہے۔ پھر دانستہ و نادانستہ ہمارا معاشرہ، سرکاری و غیر سرکاری پلیٹ فارم حتیٰ کہ منبرِعقائد و نظریات تک سماج میں عورت کے تعمیری کردار کی اہمیت اور اس ضمن میں اِس کی بہترین نفسیاتی صحت کی ضرورت پر بات کرنا تو درکنار اُسے موضوعِ بحث ہی نہیں گِردانتے۔ کیا کسی سمت سے اس اہمیت کو واضح کرنے کے لیے یہ سعی کی جاتی ہے کہ مرد کے فرائض کیا ہیں؟ عورت کے غصب شُدہ حقوق کیا کسی مرد کی اپنی ذمہ داریوں سے تہی دامنی نہیں ہیں؟

صنائع عالم نے عورت و مرد کو ایک ہی مٹی سے خلق کیا ہے اور مخصوص ذمہ داریاں تفویض کی ہیں مگر صلاحیت، قابلیت، ہمت، حمیت اور شدت کے اعتبار سے انہیں یکساں نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔ نظامِ کردگار تو یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ لباس یعنی ایک دوسرے کی شخصیت کا نکھار اور عیوب کی پردہ پوشی کے ضامن، مگر غور طلب حقیقت یہ ہے کہ اس کردار کو ہر معاشرے میں اور ہر روپ میں چاہے ماں ہو، بہن ہو کہ بیوی ہو عورت ہی نبھا رہی ہے جبکہ مرد اپنی کھوکھلی انا و بڑائی کے زعم میں عورت کا لباس ہونا توہین سمجھتا ہے۔

ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ہمارا میڈیا، تعلیمی ادارے، بلدیاتی سطح سے صوبائی اور صوبائی سے قومی سطح تک تمام اصحابِ اختیار و ذمہ دار افراد ایسے سماج کی موجودگی کو یقینی بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں جہاں مشفق باپ ہیرو ہو، بھائی باکردار ہی نہیں نرم خُو اور حلیم الطبع بھی ہو اور جہاں بیٹا ماں کی وہ عزت و تکریم دیکھے کہ کبھی اپنی بیوی کی عزت نفس کو نہ روندے۔ ایسے معاشرے کی بنیاد کے لیے راہیں استوار کی جائیں جہاں مرد ہیبت ناک فرعون نہیں بلکہ ذمہ دار زیرک و مشفق سرپرست ہوں۔ ہر سطح پر اخلاقیات بحیثیت عملی مضمون رائج کیا جائے۔ مخلوط تعلیمی نظام بھی مرد و خواتین میں لحاظ و توازن پیدا کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے بشرطیکہ اساتذہ خوش اخلاق و مہربان مگر نگران ہوں۔ با اختیار ہوں مگر ذمہ دار ہوں۔ تدریسی ادارے، منبر و مسجد، ذرائع ابلاغ، گھر کا سربراہ ہو یا گاؤں کی پنچائیت حتیٰ کہ خود عورت۔ اِس تربیت میں ہر ایک کو اپنے کردار کی اہمیت کا اِدراک کرنا ہوگا۔

عالمی یومِ خواتین کا مقصد صرف خواتین کو ان کے حقوق کا شعور نہیں بلکہ مردوں کو بھی ان کے فرائض و اختیارات بابت شعور کی آگہی کا پرچار کرنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

مقبول خبریں