سِکاڈا 3301 انٹرنیٹ کی دنیا کا پیچیدہ اور دل چسپ معمّا

غزالہ عامر  جمعرات 26 مارچ 2015
کوئی نہیں جانتا کہ سکاڈا 3301 کیا بلا ہے اور اس کے پس پردہ کون ہےفوٹو: فائل

کوئی نہیں جانتا کہ سکاڈا 3301 کیا بلا ہے اور اس کے پس پردہ کون ہےفوٹو: فائل

سِکاڈا 3301 جہان انٹرنیٹ کا ایسا معمّا ہے جسے بڑے بڑے کمپیوٹر انجنیئر اور ہیکرز حل نہیں کرسکے۔ بہ ظاہر یہ کسی کمپنی کی طرف سے دیا گیا ملازمت کا اشتہار لگتا ہے۔

اشتہار کی عبارت میں واضح طور پر درج ہے،’’ ہمیں بے حد ذہین افراد کی ضرورت ہے۔ ان کی تلاش کے لیے ہم نے ایک ذہنی آزمائش کا سلسلہ تشکیل دیا ہے۔‘‘ اس عبارت کے نیچے Cicada 3301 کے الفاظ تحریر ہیں اور ان کے نیچے ایک جھینگر یا ٹڈے کا خاکہ بنا ہوا ہے۔ اشتہار کا پس منظر سیاہ ہے جس میں مختلف ہندسے بھی درج ہیں۔ یہ اشتہار ہر سال انٹرنیٹ پر نمودار ہوتا ہے مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ اشتہار کس کی طرف سے دیا جاتا ہے اور اس میں دیے گئے معمے کو حل کرنے والے کے لیے کیا انعام رکھا گیا ہے۔

پہلی بار یہ معمّا نما اشتہار پانچ جنوری 2012ء کو شایع ہوا تھا۔ بعدازاں 2013ء اور پھر 2014ء کی اسی تاریخ کو یہ اشتہار انٹرنیٹ پر گرش کرنے لگا۔ رواں سال پانچ جنوری کو یہ اشتہار ایک بار پھر انٹرنیٹ کے حلقوں میں موضوعِ بحث بنا رہا۔ تین برس کے دوران اشتہار میں قدرے تبدیلی بھی آئی۔ پہلی بار یہ پُراسرار اشتہار ایک غیرمعروف ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا تھا۔ اشتہار میں درج تھا،’’ ہمیں انتہائی ذہین افراد کی تلاش ہے۔ انھیں ڈھونڈنے کے لیے ہم نے ایک ٹیسٹ تشکیل دیا ہے۔ اس شبیہہ میں ایک پیغام پوشیدہ ہے۔ اسے تلاش کریں اور ہم تک پہنچ جائیں۔‘‘ واضح رہے کہ اس اشتہار میں جھینگر کی تصویر شامل نہیں تھی۔ اگلے برس پھر یہ عبارت تتلی کی شبیہہ کے ساتھ شایع ہوئی۔

Cicada 3301 کی عبارت کے پیش نظر بہت سے لوگوں نے اسے کسی خفیہ سرکاری ایجنسی کی جانب سے بھرتی کا اشتہار قرار دیا۔ کچھ نے کہا کہ یہ Alternate Reality Game ہے جب کہ کئی لوگوں کے خیال میں Cicada 3301 ایک خفیہ سوسائٹی ہے جس کا مقصد رمزنویسی ( کرپٹوگرافی)، پرائیویسی اور گُم نامی کو بہتر بنانا ہے۔

تین برس کے دوران کئی لوگوں نے اس پیچیدہ ترین معمّے کو حل کرنے کے دعوے کیے۔ تاہم ان لوگوں نے نہ تو اپنی شناخت ظاہر کی اور نہ ہی Cicada 3301 کے پس پردہ فرد یا ادارے کی جانب سے ان کے دعووں کی تصدیق سامنے آئی۔ 2012ء میں البتہ یہ خبر پھیلی تھی کہ جو افراد یہ معمّا حل کرنے میں کام یاب ہوئے تھے، انھیں ای میل بھیجی گئی تھی جس میں ان کی شخصیت اور قابلیت جانچنے سے متعلق سوالات شامل تھے۔ اس خبر کے درست ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔

سویڈن کا رہائشی آئی ٹی ایکسپرٹ جوئل ایرکسن ان چند لوگوں میں شامل ہے جنھوں نے اس معمّے کو حل کرنے کا دعویٰ کیا مگر حتمی طور پر وہ بھی کچھ اخذ نہیں کرسکا۔ 2012ء میں پہلی بار جب یہ اشتہار منظرعام پر آیا تو ایرکسن نے فوراً اندازہ لگالیا کہ اشتہار کی تیاری میں ڈیجیٹل اسٹیگنوگرافی کی تیکنیک استعمال کی گئی تھی۔ اس تیکنیک کے ذریعے خفیہ معلومات ایک ڈیجیٹل فائل میں چھپائی جاتی ہیں۔ یہ تیکنیک انٹرنیٹ پر مجرمانہ سرگرمیوں جیسے پورنوگرافی اور دہشت گردی وغیرہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

پیغام کو ڈی کوڈ کرنے پر اسے ایک ویب ایڈریس ملا۔ اس نے ویب ایڈریس کھولا تو ایک بطخ کی تصویر سامنے تھی۔ تصویر کے ساتھ ہی ایک طنزیہ تحریر موجود تھی، جسے پڑھ کر ایرکسن کو اس پیغام کی جڑ تک پہنچنے کی ضد سوار ہوگئی۔ بطخ کی تصویر میں چھپے پیغام نے اسے ’’ ریڈٹ‘‘ کے میسج بورڈ تک پہنچادیا جہاں ان گنت عجیب وغریب علامات اور نشانات پوسٹ کیے جارہے تھے۔ ایرکسن کو اندازہ ہوا کہ یہ مایا اعداد تھے۔ انھیں ڈی کوڈ کرنے پر یہ معمّا ان گنت سمتوں میں پھیل گیا۔ اس میں شش دہی نظام کے ہندسوں ( hexadecimal characters ) سے لے کر ریورس انجنیئرنگ تک متعدد پہلو شامل ہوگئے۔ ایرکسن کا کہنا تھا اس مرحلے تک Cicada 3301 کے بنانے والوں نے کسی غیرمعمولی ذہانت سے کام نہیں لیا تھا مگر اس کے بعد صورت حال پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔

ایرکسن کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آئی ٹی کے متعدد ماہرین اس معمّے کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے تھے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ مشترکہ طور پر اس پیغام کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایرکسن البتہ انفرادی طور پر اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے جدوجہد کررہا تھا۔ اس کے جنون کا یہ عالم تھا کہ دفتر سے کئی کئی دن کی چھٹیاں لے کر وہ اس کام میں مصروف رہتا تھا۔ چند دنوں کے بعد اسے ایک اور سراغ ملا۔ یہ ٹیکساس کا ایک خراب فون نمبر ثابت ہوا، تاہم فون نمبر کے ہندسوں کو ضرب تقسیم کرنے پر اسے ایک نیا مفرد عدد اور ویب سائٹ کا ایڈریس حاصل ہوا۔ ایرکس نے ویب سائٹ کھولی تو وہاں جھینگر ( cicada) کی تصویر اس کا منہ چڑا رہی تھی۔ ساتھ ہی ایک گھڑی بھی موجود تھی جس پر وقت کی الٹی گنتی جارہ تھی۔

ایرکسن کے لیے یہ بڑی اہم دریافت تھی، مگر یہ معمّا بجائے سلجھنے کے الجھتا ہی جارہا تھا۔ گھڑی میں جب وقت صفر پر پہنچا تو ویب پیج پر چودہ مقامات کا محل وقوع ظاہر ہوا۔ یہ مقامات سڈنی سے لے کر سیٹل کے درمیان واقع تھے۔

ایرکسن نے یہ معلومات عام کیں تو ان جگہوں پر رہنے والے کئی لوگ ان مقامات پر پہنچے جن کا محل وقوع ویب سائٹ پر دیا گیا تھا۔ وہاں پہنچنے پر انھیں بجلی کے کھمبوں پر چسپاں پوسٹر نظر آئے جن پر جھینگر کی تصویر بنی ہوئی تھی اور ہر پوسٹر پر ایک QR کوڈ بھی دیا گیا تھا۔ جب ان کوڈز کو ڈی کوڈ کیا گیا تو ایک ٹور ایڈریس ( TOR address ) سامنے آیا۔ یہ ایڈریس عام انٹرنیٹ نہیں بلکہ ’’ ڈیپ ویب ‘‘ کا تھا (انٹرنیٹ کے اس حصے تک عام سرچ انجنز کو رسائی حاصل نہیں)۔ انٹرنیٹ کے اس حصے یا ڈیپ ویب کو مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جب ایرکسن اور دوسرے آئی ٹی ماہر اس ویب سائٹ پر پہنچے تو یہ پیغام ان کا منہ چڑا رہا تھا،’’ ہمیں بہترین کی تلاش ہے، پیچھے پیچھے چلنے والوں کی نہیں۔‘‘ ان ہی دنوں یہ خبر پھیلی کہ سِکاڈا 3301 کے پس پردہ افراد یا تنظیم نے کچھ لوگوں کو ای میل بھیجی ہیں، اور انھیں منتخب کرلیا گیا ہے۔ اس خبر کی بنیاد چند ہفتے کے بعد سکاڈا کی طرف سے ریڈٹ پر پوسٹ کیا جانے والا ایک پیغام تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہم نے اپنے مطلوبہ افراد تلاش کر لیے ہیں، اس طرح ہماری تلاش ( فی الحال) اختتام کو پہنچتی ہے۔ تاہم یہ منظرعام پر نہیں آسکا کہ کن لوگوں کو منتخب کیا گیا تھا، اور سکاڈا 3301 کی حقیقت کیا ہے۔

گذشتہ، اور گذشتہ سے پیوستہ سال میں سکاڈا کی جانب سے نئے معمّے جاری کیے گئے تھے، مگر اس برس کوئی معمّا سامنے نہیں آیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ سکاڈا 3301 کیا بلا ہے اور اس کے پس پردہ کون ہے۔ تاہم ایرکسن جیسے ماہرین کے مطابق یہ گُم نامی ہی اس کا حُسن ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ سکاڈا 3301 کی حقیقت اور اس کے پس پردہ ہاتھ تک اس وقت تک نہیں پہنچا جاسکتا جب تک کہ اس معمّے کو سو فی صد حل نہ کرلیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔