گجرات کا اژدہا اور ریسکیو 1122
گجرات کے ہی استاد امام دین بھی تھے اور اسی دھرتی کے سوہنی مہینوال بھی
برس دو برس پہلے کی بات ہے کہ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مریض کو فوری طور پر گھر سے اسپتال لے جانا تھا۔
کینسر کے کمزور مریض کو اسپتال لے جانے میں بہت احتیاط کی ضرورت تھی لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایمبولینس فوری طور پر کہاں سے مل سکتی ہے۔ میں نے ایک اسپتال میں فون کیا تو مجھے مشورہ دیا گیا کہ اسپتال میں اس وقت ایمبولینس دستیاب نہیں لیکن پبلک ریسکیو موجود ہے، اسے 1122 پر فون کر دیں، اس سرکاری ادارے پر مجھے اعتبار نہیں تھا لیکن میں نے فوراً فون کر دیا۔ پتہ وغیرہ لکھا دیا، پھر دیکھا کہ چند منٹ بعد ایک گاڑی گھر کے دروازے پر کھڑی تھی جس میں سے دو تین مستعد نوجوان اسٹریچر کے ساتھ اترے اور دوسری منزل پر موجود مریض کو بحفاظت اور بآرام اتار کر اپنی ایمبولینس میں سوار کر دیا۔
شوکت خانم اسپتال میں مریض کو متعلقہ شعبے کے حوالے کیا اور واپسی کی اجازت چاہی۔ میں نے خرچ وغیرہ کی بات کی تو پتہ چلا کہ یہ سب مفت ہے۔ میں نے عملے کو انعام دینے کی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی اور اس طرح 1122 کی یہ ایمبولینس اور اس کا عملہ مجھے حیران پریشان چھوڑ کر چلا گیا۔ اسپتال کے ڈاکٹروں نے مریض کو سنبھال لیا۔ فوری طور پر بلا معاوضہ ایمبولینس اور فرض شناس ڈاکٹر ،کیا یہ سب پاکستان میں ہو رہا تھا۔ یہ سب میرے سامنے خود میرے ساتھ ہوا لیکن سچ جانیں مجھے اب تک اس سارے واقعے پر یقین نہیں آتا۔ گجرات کے چوہدری پرویز الٰہی جب وزیراعلیٰ تھے تو انھوں نے بلا امتیاز سب کے لیے عوامی خدمت کا یہ ادارہ قائم کیا تھا، مزید تعجب یہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی یہ جوں کا توں پرانی آب و تاب سے چل رہا ہے اور اب تو اس نے گجرات سے ہی ایک آوارہ اژدہا بھی پکڑ لیا ہے، اسے ریسکیو کر لیا ہے۔
اسٹوری یہ ہے کہ آجکل کے غیر معمولی موسم میں یہ اژدہا نہ جانے کیسے ایک برساتی نالے میں دیکھا گیا۔ دو من وزنی اور پندرہ فٹ سے زائد لمبا سانپ دیکھ کر لوگوں نے فوراً 1122 کو اطلاع دی جس کے عملے نے بلا خوف و خطر اس سانپ کو قابو کر لیا۔ یہ اژدہا گجرات کے ایک ندی نالے میں لیٹا ہوا دیکھا گیا تھا۔ اب یہ لاہور کے چڑیا گھر میں متحرک ہے۔
علاوہ اس انسان دوست اژدہا کے گجرات کے ہمارے کئی اور مہربان بھی ہیں۔ چوہدری صاحبان ہیں جو گجرات سے پہچانے جاتے ہیں اور گجرات ان سے پہچانا جاتا ہے، ان کے علاوہ ہمارے مہربان چوہدری اعتزاز احسن ہیں جن کا گجرات سے تعلق اب بہت کمزور ہو چکا ہے لیکن میاں افضل حیات بدستور گجرات کے ہیں اور ان کی سیاست کا مرکز بھی گجرات ہی ہے۔ الیکشن آنے والے ہیں، وہ اب لاہور سے زیادہ گجرات میں پائے جائیں گے۔ پھر اس گجرات کے شاعر استاد امام دین تھے۔ 'بانگ دہل' والے جنہوں نے اقبال کے 'بانگ درا ' کے مقابلے میں اپنے دیوان کا نام بانگ دہل رکھا۔ بانگ درا یعنی گھنٹی کی آواز اور بانگ دہل ڈھول کی۔ لاہور میں ان کی اقبال سے ملاقات بھی ہوئی جس کو انھوں نے یوں بیان کیا کہ
ہم گئے لاہور وہاں دیکھا علامہ اقبال
گھلاں بھی کرتا جاتا تھا اور حقہ بھی پیتا جاتا تھا نالو نال
یعنی باتیں بھی کرتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ حقہ بھی پیتا جاتا تھا۔ استاد ایسی ہی تک بندیوں کی وجہ سے مشہور ہو گئے لیکن در حقیقت وہ بہت بڑے شاعر تھے، بس ایک شعر ان کی مغفرت کے لیے کافی ہے۔
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
تو عرض ہے کہ گجرات کے ہی استاد امام دین بھی تھے اور اسی دھرتی کے سوہنی مہینوال بھی۔ مہینوال ایک شہزادہ اور سوہنی گجرات کی کمہارن۔ اب ان خوبصورت معزز اور بڑے لوگوں کے ساتھ کسی اژدہا سانپ کا ذکر کرنا بے ادبی لگتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے اور یہ واقعہ یوں بھی گجراتی ہے کہ گجرات آنے والے اس آوارہ سانپ کو ایک گجراتی وزیراعلیٰ کے قائم کیے گئے محکمے نے گرفتار کیا ہے۔ سانپ نہیں اژدہا جسے ٹی وی والوں نے بار بار دکھا کر اس کا رعب داب بہت کم کر دیا ہے، ویسے اس اژدہا کا رعب تو اس وقت ہی کم ہو گیا جب چند نوجوانوں نے اسے پکڑ کر ایسا قابو کیا کہ اسے بوری میں بند کر دیا۔ کہاں وہ ہرے بھرے جنگلوں میں شکار کھیلنے والا اژدہا اور کہاں بند بوری بے بسی۔ بہر کیف یہ اژدہا اپنی اس تاریخ میں سراسر گجراتی ہے۔
گجرات کی سیاسی طور پر زرخیز زمین کو اس طاقت ور اور انتہائی با رعب سانپ کو یاد رکھنا چاہیے اور کسی 1122 کو بھی۔ آپ کتنے ہی بڑے ہو جائیں 1122 کی ایک گاڑی کی مار ہیں جو کسی بھی ضرورت مند یا خطرناک صورتحال کی تاک میں رہتی ہے۔ یہ 1122 ایک گجراتی نے خود بنائی ہے یعنی دیوانے نے خود اپنی زنجیر بنائی ہے۔ ریسکیو کی یہ ٹیم اس قدر مشہور ہو چکی ہے کہ نجات اور بچائو کا استعارہ بن گئی ہے۔ گجرات کی ایک اور زبردست شخصیت یاد آ گئی ہے، اس شہر میں ایک رسہ گیر ایسا تھا جس کا دور دور تک شہرہ تھا۔ میں ڈر کے مارے اس کا نام نہیں لکھتا۔
رات کو گپ شپ میں کسی نے اس سے کہہ دیا کہ چاچا مزا تو جب ہے کہ آپ ڈی سی کی گھوڑی کھول لیں یعنی چرا لیں۔ بات اس وقت تو ہنسی میں اڑ گئی لیکن چند دن بعد پولیس نے گجرات کی مٹی بھی الٹ پلٹ کر دی۔ گھوڑی ہو اور وہ بھی ڈی سی کی اور چوری ہو جائے۔ نا ممکن لیکن یہ ممکن ہوگیا، اس کے بعد پولیس والوں نے ناک سے لکیریں کھینچیں، منتیں کیں تو گھوڑی برآمد ہوئی اور اس کے لیے ایک کہانی گھڑی گئی جس سے پولیس، ڈی سی اور اس شہرہ آفاق رسہ گیر کی عزت بحال ہوئی۔ عرض یہ ہے کہ گجرات تاریخ سے بھرا ہوا شہر ہے جہاں شاہ دولہ کے چوہے رہتے ہیں۔ یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن فی الحال موضوع کالم یہ سانپ ہے اژدہا جو انسان دوست ہے اور ہرنوں اور دوسرے چھوٹے جانوروں کا شکار کرتا ہے، انسانوں کو نہیں چھیڑتا مگر آج وہ انسانوں کی قید میں ہے اور انسان کے بچوں کے لیے تماشا بنا ہوا ہے۔