سپاہی کی عید
پاکستان پربھی اللہ تبارک تعالیٰ کا فضل و کرم بے پایاں ہے۔ہمارا ملک ناقابل یقین حد تک مالی وسائل سےآراستہ اوربھرپورہے
باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بے پایاں ہے مگر پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے ان دنوں فارسی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو مولانا ابوالکلام آزاد کا پسندیدہ تھا اور انھوں نے کئی بار نقل بھی کیا تھا، مولانا اپنی قوم کی برطانوی غلامی سے پریشان رہتے تھے اور ان کی ہر عید خوشی کی عید نہیں ہوتی تھی۔ میں اس شعر کا ترجمہ پیش کرتا ہوں کہ عید آئی اور میرے غم کو دگنا کر گئی، سچ ہے کہ کسی غمزدہ کے لیے عید بھی ایک اور ماتم ہوتی ہے۔ چلیے یہ شعر بھی سن لیجیے
عید آمد و افزود غم را غم دیگر
ہر غمزدہ را عید بود ماتم دیگر
میری طرح اس وقت پاکستان پر بھی اللہ تبارک تعالیٰ کا فضل و کرم بے پایاں ہے۔ ہمارا ملک ناقابل یقین حد تک مالی وسائل سے آراستہ اور بھرپور ہے۔ ملک کا جائزہ لیں تو دور دور تک کوئی ایسی پریشانی دکھائی نہیں دیتی جو قابل علاج نہ ہو، ہمیں قدرتی وسائل کے ساتھ اللہ نے افرادی قوت اور اس کی ذہانت کی بہت بڑی نعمت بھی عطا کی ہے۔
ایک ہی مثال دیکھ لیں کہ دنیا بھر کی بڑی طاقتوں اور ملک کے اندر موجود بزدلوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کی کوشش کے باوجود ہم آج دھڑلے سے ایٹمی طاقت ہیں۔ میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے بعض ملکوں کی توہین آمیز کوششوں کا ذکر نہیں کروں گا بس یہ خدا کا فضل و کرم تھا کہ اس نے ایک اسلامی ملک کو دشمنوں کے لیے ناقابل تسخیر بنا دیا اور اب بھی لوڈشیڈنگ وغیرہ کی طرح ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے یہ سب ہماری بدعنوانی اور حرص و ہوس کا نتیجہ ہیں ورنہ جو ملک کسی بھی ایٹمی طاقت کو مطیع کر سکتا ہے کیا وہ بجلی کا بلب نہیں جلا سکتا۔ ہماری بجلی کی ضرورت کو بیچ کر کھا جانے والے کبھی ہمارے وزیراعظم بھی تھے۔
اس سے بڑی شرمندگی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ آپ سب حیرت زدہ ہو جائیے کہ ہمارا سب سے طاقت ور شخص تو عید کا مبارک اور جذباتی تہوار گھر والوں کے ساتھ نہیں ان سپاہیوں کی ایمان پرور حرارت کی آغوش میں منا رہا ہے جو سرد پہاڑوں میں گھروں سے دور دشمن کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اس طاقت ور شخص سے اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کی بھیک مانگنے والے گھر والوں سمیت بیرونی ملکوں کی سیر و سیاحت کر رہے ہیں اور انھیں نہ ملک کے بھکاری یاد آتے ہیں اور نہ ملک کے محافظ۔ ایک محافظ کی بات سنئے۔
کسی رپورٹر نے پاکستان کی کسی پہاڑی پر دشمن کی تاک میں سردی سے کانپتے ہوئے سپاہی سے پوچھا کہ گھر والوں کے ساتھ عید کی بات ہی اور ہے مگر آپ تو گھر والوں کی محبت کی حرارت سے دور کسی پہاڑی کے پتھروں کی سرد ترین رفاقت میں عید منا رہے ہیں، یہ تنہائی آپ کو کیسے برداشت ہوتی ہے۔ اس پر معمولی پڑھے لکھے سپاہی نے کہا کہ گھر میں عید تو صرف گھر والوں کے ساتھ منائی جاتی ہے لیکن میں یہاں پورے ملک اور پوری قوم کی محبت اور پیار کی حرارت کے ساتھ عید منا رہا ہوں اور شاید اپنا وہ مقصد بھی پا لوں۔
اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے فاتح اور سپہ سالار حضرت خالد بنؓ ولید کہا کرتے تھے کہ ہم کسی کو فتح کرنے کے لیے جنگ نہیں لڑتے ہم تو شہادت پانے کے لیے جہاد کرتے ہیں۔ پاکستان کے اس سپاہی نے بھی یقیناً اپنے جرنیل کی یہ بات سن رکھی ہوگی جو آج شہادت کی جستجو میں نہ جانے کہاں بے تاب کھڑا ہے اور اکیلے عیدالفطر کا جشن منا رہا ہے۔ گھر والے گھر میں اس کے لیے دعاگو ہیں اور بے حد اداس ہیں۔
ایسے سپاہیوں اور ایٹم بم بنانے والے سائنس دانوں کے ملک کو اپنی تفریح گاہ سمجھنے والے بے رحم سیاسی حکمرانوں کو کوئی کیا کہہ سکتا ہے اور وہ کون سے الفاظ ہیں جو ان کی شان میں لکھے جا سکتے ہیں کہ وہ اس ملک کو حالت جنگ میں چھوڑ کر عید منانے اس عظیم ملک سے باہر چلے گئے لیکن ایک سرکاری ملازم جس کی گزر بسر اس کی تنخواہ پر ہے آرام دہ آرمی ہاؤس کو چھوڑ کر اپنے ان ساتھیوں، دوستوں اور ہم سفروں کے ساتھ عید منانے ان کے مورچوں پر پہنچ گیا۔
اپنے سپہ سالار کو اپنے سامنے زندہ سلامت مسکراتے اور عید کی مبارک دیتے دیکھ کر یہ عید یوں ان سپاہیوں کو قدرت نے ان کا انعام بنا دی۔ جہاد میں دن رات مصروف ان سپاہیوں کی ہمت افزائی اور ان کے ساتھ محبت و الفت کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ ان کا سپہ سالار بھی ان کے سامنے ان کے ساتھ عید منا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اور ہمارے شمالی علاقوں کے پتھروں نے ایسا منظر خواب میں بھی نہ دیکھا کہ اسے دیکھ کر وہ پگھل گئے۔ کہیں پڑھا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی ملازمت پوری ہونے والی ہے بس چند ماہ باقی ہیں۔
قدرت کو اگر یہی منظور ہے تو وہ ایک اور جنرل راحیل بھجوا دے گی۔ ہم عام غیر فوجی پاکستانی کیا سوچتے ہیں اس کو اس وقت لکھنا شاید مناسب نہ ہو، بہر کیف اگر اللہ تعالیٰ کو اس ملک کی سلامتی منظور ہے تو برصغیر کے مسلمانوں نے اللہ اور رسولؐ کے نام پر جو ملک حاصل کیا تھا اور کفرستان میں اذان دی تھی اللہ اس کا محافظ بھی بھیجتا رہے گا اور میدان جنگ میں ہمارے مجاہد تنہا نہیں پوری قوم کے ساتھ عید منائیں گے۔