کبھی یوں بھی ہوتا ہے
پاکستانیوں پر سیلاب کی قیامت ٹوٹ پڑی ہے مگر داد دیجیے اپنے سیاستدانوں کی کہ وہ اس قیامت میں بھی صحیح سلامت ہیں
لگتا ہے کہ کسی بزرگ نے ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ شرارت کی ہے یا سچ کہا ہے کہ اس سال عیدالفطر کے دن قریب قریب تمام سیاستدان ملک سے باہر تھے اور بیرون ملک کہیں سے اپنے ہموطنوں اور ووٹروں کو عید مبارک کہہ رہے تھے اور ہنس رہے تھے کہ کیسے احمق لوگ ان کے عوام ہیں جو اس غیر حاضر سمندر پار کی عید مبارک پر ہی خوش ہیں۔ میرے پسندیدہ ایک بیمار حکمران نے تو عوام سے یہ تک کہا ہے کہ آپ فکر نہ کریں میں سات سمندر دور ہونے کے باوجود آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یہ یقین دہانی انھوں نے لندن سے کرائی ہے جہاں وہ عید منا رہے تھے اور علاج بھی۔
پاکستانیوں پر سیلاب کی قیامت ٹوٹ پڑی ہے مگر داد دیجیے اپنے سیاستدانوں کی کہ وہ اس قیامت میں بھی صحیح سلامت ہیں اور قیامت زدہ پاکستانیوں کو عید کی مبارک بادیں بھجوا رہے ہیں۔ ایک اخبار کے چند کالم نگاروں نے اپنی کسی محفل کی روداد کی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کون کہتا ہے ہمارے سیاستدان ملک سے باہر ہیں اور کہیں پردیس میں عید منا رہے ہیں۔ وہ جہاں عید منا رہے ہیں وہی تو ان کا وطن ہے پاکستان تو ان کی کالونی اور نو آبادی ہے جو وطن نہیں ہوا کرتی وطن نما ہوتی ہے۔
پاکستانیوں کو برطانوی دور یاد ہے اور وہ بیرون ملک مقیم حکمرانوں کے انداز جانتے ہیں۔ اب ان غیر ملکی حکمرانوں کی یاد آتی ہے تو ان پر ہم اپنے ملکی حکمرانوں کو قیاس کرتے ہیں جنہوں نے اپنی حکمرانی کو ان غیر ملکی حکمرانوں کے طور اطوار سے بچا رکھا ہے۔ ان دنوں ریلوے کے حادثے ہو رہے ہیں اور ہر حادثے کی خبر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پل اور پٹڑی سو ڈیڑھ سو سال پہلے انگریزوں نے بنائی تھی اور اس کی تعمیر میں چونکہ مال نہیں کھایا تھا اس لیے وہ اب تک ریل گاڑی کی دھمک برداشت کر رہی ہے۔
ہم تو ریلوے کراسنگ یعنی پھاٹکوں کو محفوظ نہیں بنا سکے جن سے گزرنے والی گاڑیاں نہ جانے کتنے حادثے کر چکی ہیں اور ہمارے حکمرانوں کے کتنے ووٹروں کی جان لے چکی ہیں۔ اب ہمارے حکمرانوں کی وطن واپسی شروع ہو چکی ہے اور ان کے سیاسی کارکن مبارک باد وصول کرنے کے لیے بے چین بیٹھے ہیں۔ کوئی سیاسی کارکن ان سے اشارتاً بھی نہیں پوچھے گا کہ حضور عید کے موقع پر آپ بھاگ کیوں گئے تھے اور ہمیں مبارک باد پیش کرنے اور وصول کرنے سے محروم کیوں رکھا تھا۔
اس دفعہ ایک عجیب اور معنی خیز صورت حال سامنے آئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فوج کے اعلیٰ ترین افسروں کو ان کے سربراہ نے ہدایت کی کہ وہ عید گھر پر نہیں منائیں بلکہ اپنے جوانوں کے ساتھ عید منائیں گے۔ کتنے ہی جرنیل ہم نے دیکھے کہ گھروں سے دور دراز مقامات پر پہنچے ہیں اور مورچوں میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ عید مل رہے ہیں۔
یوں پوری فوج نے اپنے کمانڈروں سے براہ راست مل کر عید منائی اور حیرت زدہ رہ گئے۔ سپہ سالار جنرل راحیل شریف بھی انتہائی مشکل محاذ پر سینہ سپر سپاہیوں کے پاس پہنچے اور اپنے ان بھائیوں کو بتایا کہ ان انتہائی مشکل حالات میں اور اس شدید خطرناک گرم محاذ جنگ میں آپ مجھے اپنے ساتھ پائیں گے۔ فوج کی اس منفرد سرگرمی کی خبر اخباروں میں چھپی اور ٹی وی پر بھی دیکھی گئی۔
پوری قوم حیران رہ گئی کہ ایسا تو کہیں ہوا نہیں۔ ہم نے تو عید کے دن جرنیلوں کو صرف حکمرانوں سے عید ملتے دیکھا ہے اور ٹی وی کیمروں نے ان کی مسکراہٹیں عوام تک پہنچائی ہیں اس صورت حال کو یوں سمجھیں اور دیکھیں کہ سیاستدان ملک سے باہر عید منا رہے تھے اور ان کی جگہ فوج قوم کے سپاہیوں سے عید مل رہی تھی اور پورے ملک میں جہاں بھی سپاہی ڈیوٹی پر ہیں وہ اپنے جرنیلوں سے عید مل رہے ہیں یعنی مختصر الفاظ میں سیاستدان ملک سے باہر اور فوجی جرنیل ملک کے اندر۔ ہم پاکستانی ایسے حالات کو ذرا مختلف انداز میں دیکھ چکے ہیں اور سیاستدانوں کی غیر حاضری اور فوجیوں کی حاضری ہم نے کئی بار دیکھی ہے۔
اب پاکستانی خود اندازہ کر لیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے اور ایسے ہی حالات میں ہمارے حکمران کے لیے کروڑوں کی گاڑیاں منگوائی گئی ہیں اور بیرون ملک عید کا جشن منانے کے لیے قومی خزانے کے منہ کھولے گئے ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا ہے ملک میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سویلین لیڈر ملک سے باہر ہوں اور فوجی لیڈر اندر۔ یہ صورت حال پریشان کن بھی ہو سکتی ہے اگرچہ ہم پاکستانیوں کے لیے یہ عجیب نہیں لیکن اس کے نتائج عجیب رہے ہیں اور یہ پسماندہ ملک مزید پیچھے چلا گیا ہے۔
بالکل انھی دنوں یورپ کا ایک ملک یونان معاشی تباہی سے دوچار ہوا ہے کہ لیکن اس کو بچانے کے لیے دنیا کے دولت مند ملک تیار ہو گئے ہیں اور یونان کے بینک کھل گئے ہیں اور لوگوں کو ایک محدود رقم مل رہی ہے لیکن ہمارا تو کوئی یورپ نہیں ہے جو کوئی ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور ہمارے وجود کو پسند نہیں کرتا۔ ہم ان دنوں کچھ وقت سے بے پناہ قرضے لے آ رہے ہیں اور تعجب ہے کہ جب آئی ایم ایف وغیرہ ہماری درخواست پر قرض کی منظوری دیتے ہیں تو ہم اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں اور ملک کے حکمران جشن مناتے ہیں۔ خبر چھپتی ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اتنے بڑھ گئے ہیں۔
جیسے میں کسی دولت مند سے قرض لے کر اپنی جیب بھر لوں اور اکڑتا پھروں کہ میں اتنا دولت مند ہو گیا ہوں۔ معاشیات کے نہایت ہی اہم مضمون کو میں نہیں جانتا لیکن روز مرہ کی معاشیات کو سمجھتا ہوں آپ کی طرح کہ قرض اور آمدن میں کیا فرق ہوتا ہے۔ میں خوفزدہ اور ہراساں ہوں کہ ہماری معاشی صورت حال یعنی قرضوں پر چلنے والی معیشت کیا گل کھلائے گی اور جناب ڈار صاحب ہمیں قرض کے کس جہنم کے سپرد کر دیں گے۔ ہمارے سیاستدان کا اس ملک سے تعلق بس واجبی سا رہ گیا ہے ان کا سب کچھ باہر ہے صرف وہ خود کے اندر ہیں اور جب تک ان کو کوئی نکالتا نہیں وہ اندر ہی رہیں گے اور ناقابل تصور حد تک قومی خزانے پر عیش کرتے رہیں گے۔
ایک ضروری گزارش: آخر میں ایک بے حد ضروری گزارش اور وہ یہ کہ عید میرا ڈرائیور کھا گئی ہے۔ مجھے ڈرائیور کی سخت ضرورت ہے۔ قارئین اس مسئلے پر توجہ دیں ورنہ میں نا مکمل قسم کے کالم لکھا کروں گا۔