جو مسیحا ہیں وہی قاتل

فرح ناز  ہفتہ 3 اکتوبر 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

عید قرباں بھی گزرگئی، باقی رہ گیا ہے گوشت جو فریزر میں محفوظ ہے اور وہ آلائیشیں جو لوگوں نے گلی کوچوں میں چھوڑ دی ہیں۔ عید ہو، بارش ہو یا کوئی بھی ناگہانی آفت، آج تک ان سب سے نمٹنے کے لیے سرے سے کوئی نظام موجود ہی نہیں ہے ۔ باتیں تو ہم امریکا، یورپ کی کرتے ہیں اسٹائل ایسے مارتے ہیں کہ انگریزوں کو بھی احساس کمتری ہوجائے۔

اگر کبھی ٹریفک جام میں پھنس جائیں تو گھنٹوں لمبی لمبی قطاریں اورانتظامات درست کرنے والے ایسے غائب کہ ڈھونڈے سے نہ ملیں، لوڈ شیڈنگ تو ایسی کہ لوگ Heat Stroke سے کم اور لوڈ شیڈنگ سے زیادہ مریں۔ پانی اگر نایاب ہوجائے تو ہزاروں خرچ کرکے پانی کا حصول ہوتا ہے، بارشیں ہوجائیں تو قیامت کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں اور سیلاب الگ، گو کہ جو مسیحا ہیں وہی قاتل بن گئے اور عوام بے سہارا، مجبور، نہ صبح گزرے نہ شام گزرے، اتنے سال گزرنے کے باوجود آج تک ہم سسٹم کے لیے روتے ہیں کہ ہرکام ایک طریقہ کار مانگتا ہے اور ہر کام کو انجام تک پہنچانے کے لیے ایک سسٹم کا ہونا ضروری ہے، سرمایہ کاری اور نقشوں کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں جو کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیے چاہیے ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں قربانی کے جانور تو حاصل کر لیے جاتے ہیں مگر قربانی کے بعد صفائی کے عمل پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔الیکٹرونک میڈیا کو ہر تہوار پر عوام کوآگاہی دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ کام ہو نہیں رہا بلکہ موقع محل کی نسبت سے اگر ضرورت کی بنیاد پر اسے کاموں کی اہمیت بڑھادی جائے تو یقینا صورتحال میں بہتری آئے گی۔بڑے جانور ایک سڑک پر شامیانہ لگاکر لگاتار 3 دن تک ذبح کیے جاتے ہیں اور جانوروں کے ذبح کرنے کی وجہ سے بے تحاشا خون اور جانوروں کے لوازمات کی بھرمار ہوتی ہے۔

اب آپ سوچیے کہ اگر آپ ان جگہوں کے آس پاس رہائشی ہیں تو شدید گرمی میں کیا حشر ہوگا جب کہ صفائی کے انتظامات ناکافی ہیں۔ اجتماعی قربانی کے جانور ذبح ہوں تو اچھی بات ہے مگر صحیح انتظامات کے ساتھ اگرکیے جائیں اور صفائی اور دھلائی کے برابر انتظامات ہوں کہ جب صبح سے شام ہو تو پتہ ہی نہ چلے، کوئی گندگی کا نشان نہ ہو۔ ہر سال کے تہوار پر، رسمیں باقاعدگی سے پلاننگ کی جائیں اور ایک مکمل سسٹم بنایا جائے، جس میں صفائی و ستھرائی کا بہترین پلان ہو، ہر صوبہ، ہر شہر نہایت ذمے داری کے ساتھ، ایمانداری کے ساتھ ان شاندار تہواروں کو ان کی اصل روح کے ساتھ منایا جائے تو شوق و جذبات بہت اچھے ہوںگے اور آنے والے وقتوں کے لیے بھی ایک راستہ بنے گا۔

بد قسمتی سے ہم لوگ اپنے آپ کو بہت اعلیٰ، مہذب، فیشن ایبل تو کہتے ہیں مگر دیکھا جائے تو بنیادی اور ضروری احساسات سے عاری تمام تر سہولتیں اور آسانیاں تو ہماری زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ہیں نہ کہ دن بدن ہم خود غرض، مطلبی اور منفی سوچ رکھنے والے ہوجائیں۔

بہرحال گزارش یہی ہے کہ ہمارے جو بڑے تہوار ہیں ان کو مکمل ایک سسٹم میں لایا جائے اور باقاعدگی سے صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ تمام تر لوگوں کے لیے آسان بنایاجائے اور خاص طور پر صفائی و ستھرائی کی اہمیت کو سمجھا اورسمجھایا جائے۔ان تمام معاملات کے ساتھ ساتھ سیاست بھی گرما گرم ہے کہ ضمنی حلقوں کے انتخابات اور پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے ساتھ ساتھ ان پارٹیوں کی مقبولیت کہاں کہاں تک ہے اور کون کون کتنے پانی میں ہے۔

عمران خان ہو یا نواز شریف یا آصف زرداری یا اور دوسری پارٹیوں کے سربراہان تمام کے تمام کہتے تو ہیں کہ وہ ہماری فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ گلے شکوے بھی کرتے رہتے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے مشکل وقت میں جس طرح پاک فوج اتنی ذمے داریاں نبھا رہی ہے اور پاکستان کے اندر اور سرحدوں پر جس ذمے داری سے عوام کے شانہ بہ شانہ ہے تو سلوٹ ہے ان تمام جوانوں پر جو ہماری فوج کا حصہ ہیں۔

پاکستان بھر میں قتل و غارت کے واقعات کم ہوئے اور عوام نے سکون کا سانس لیا، بہرحال انتخابات ہوں یا ضمنی انتخابات، کوئی بھی عوام کے ووٹ لے کر آئے اگر وہ نیک نیتی سے کام کرے اور محنت و لگن کے ساتھ کچھ نہ کچھ بہترکرنے کا جذبہ لے کر آئے تو ہم سب ان کو ویلکم کہیںگے اور اب لگتا تو کچھ ایسا ہے کہ جو کام کرے گا وہی نام کمائے گا۔

صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ ہو یا پنجاب کے، عوام اب کھلی آنکھوں سے موازنہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے لیے کون صحیح کام کررہاہے ۔ KPK صوبے کی پولیس کی واہ واہ ہورہی ہے اور اسی لیے ہورہی ہے کہ جو کام کیا گیا ہے وہ نظر آرہا ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ ایک سسٹم بنانے کی تگ و دوکی جارہی ہے کوشش کی جارہی ہے کہ ایک صحیح مناسب سسٹم بن سکیں اور اگر یہ صوبہ پولیس کا ایک بہترین سسٹم بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ یقینا اس پارٹی کی فتح ہوگی۔

کامیابی ہوگی اور دوسرے صوبوں کو بھی ایک راستہ ملے گا، بے شک یہ سب آسان نہیں بہت مخالفتیں اور دشمن کی چالوں کے ساتھ جد وجہد کرنا اور صحیح راستے تک پہنچا اور ایک مثال قائم کرنا۔ ہر صوبے کو اپنے اپنے گول بنانے چاہیے اور ہر صوبے کے کیپٹن کو اپنی ٹیم کو لیڈ کرتے ہوئے کارکردگی کی مثال بنانی چاہیے لیکن کیا کرے ہمارے ہاں تو سب الٹ پلٹ ہی ہے جو کام ہونا چاہیے وہ نہیں ہوتا اور جو کام نہیں ہونا چاہیے اسی میں سب مصروف ہیں یہاں تک کہ آگے سے آگے بڑھنے میں لگے پڑے ہیں ، دیانتداری اور بلند کرداری کو چھوڑ چھاڑکر سب کے سب لوٹنے میں، مالا مال ہونے میں آگے سے آگے جا رہے ہیں اور کس حد تک آگے جارہے ہیں یہ سوچ بھی سوچنے سے قاصر ہے، آٹا ہے تو ملاوٹ، دوائی ہیں تو جعلی، ٹھیکے میں تو موجود ہیں نقشوں پر اور پیسے ان کی جیبوں میں، اسپتال انتظامات سے عاری، بیماریاں عروج پر مگر ان کی روک تھام میں ادارے بے بس جو مسیحا ہے وہی قاتل بنے جارہے ہیں۔

آئے دن اب ہم سنتے ہیں کہ فلاں جگہ چھاپہ پڑا، فلاں جعلی اور ناقص ،مضر صحت مواد پکڑا گیا مگر ان سب کے اثرات کیا ہیں؟ کتنے ملزموں کو پکڑا گیا ہو اور کتنے لوگوں کو سزا سنائی گئی ہو، بے گناہ جیلوں میں سڑ رہے ہوتے ہیں اور جو رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں وہ کچھ دنوں کے بعد غائب ہوجاتے ہیں، غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مررہا ہوتا ہے کہ نہ کھانے کو اور نہ مرنے کو۔

فوٹو سیشن کی بجائے اگر عوامی نمایندے اپنے کاموں پر توجہ دیں اور اپنے بینک اکاؤنٹ سے زیادہ اپنے فرائض پر توجہ دیں اور لوگوں کے درمیان رہیں اپنے فاصلوں کو کم کریں، ایک عام آدمی کی ضرورت اور اپنی ضرورت کو ایک جانے تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب کامیابی و ترقی سے ہمیں کوئی نہیں روک سکے گا، عالیشان اور جاہ و جلال تو صرف اور صرف اﷲ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی سب کچھ کرنے کی طاقت رکھتا ہے ہم اپنی اپنی جگہ لاکھ اچھی صلاحیتیں رکھتے ہوں ، ہے تو دین اﷲ ہی کا، جب اﷲ ہمیں بہترین صلاحیتیں عطا فرماتا ہے تو ہمیں بھی ان کو بروئے کار لانی چاہیے، ہمیں ایک دو کے فائدے کا نہیں بلکہ سیکڑوں کے فائدے کا سوچنا چاہیے۔

چھوٹی سی زندگی میں بڑے بڑے کام کرنے کے مواقعے مل جائیں تو یہ خوش نصیبی ہی ہے جو ہر کسی کے حصے میں کہاں، ہر انسان اپنے اعمال کا بوجھ لے کر میدان حشر میں اترے گا وہی پائے گا جو بوئے گا، وہ محل والا ہو یا جھونپڑی والا سب کے سب ایک گہرے اندھیرے گڑھے میں دبائے جائیںگے جہاں نہ ڈالر اور نہ مرسڈیز ہوگی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔