امریکا بہادر کی بزدلی!

نور پامیری  منگل 6 اکتوبر 2015
عالمی سطح پر مروجہ جنگی اصولوں کے مطابق اسپتال اور اسکولوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

عالمی سطح پر مروجہ جنگی اصولوں کے مطابق اسپتال اور اسکولوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

طبیبانِ بے سرحد، یا ڈاکٹرز وِد آوٹ بارڈرز، ایک عالمی طبی ادارہ ہے جس کے ساتھ مجھے ایک سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان میں یہ ادارہ ہنگو، کوئٹہ، ڈیرہ مراد جمالی، باجوڑ ایجنسی، کُرم ایجنسی، چمن اور اس طرح کے دوسرے دور دراز علاقوں میں سرکاری محکمہ صحت کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ پشاور میں البتہ ان کا اپنا اسپتال ہے، جہاں خواتین اور بچوں کے ماہرِ امراض ڈاکٹرز ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ ایسے اسپتال اور دیگر طبی مراکز ’’طبیبانِ بے سرحد‘‘ دنیا بھر کے 76 جنگ زدہ اور غربت کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے ممالک، یا علاقوں میں چلاتی ہے۔

ایک ایسا ہی بد قسمت اسپتال افغانستان کے شہر قندوز میں بھی تھا۔ اس اسپتال میں 100 کے لگ بھگ اسٹاف ممبرز اور بڑی تعداد میں مریض اور ان کے ہمراہ آنے والے افراد موجود تھے، جب طالبان کے ساتھ برسرِ پیکار افغانی اور امریکی حکام نے اس اسپتال پر آگ اور لوہے کی بارش کر دی۔ 30 منٹ تک جاری رہنے والے حملے نے اسپتال کے ایک حصے کو مکمل طور پر منہدم کردیا، جبکہ اس حملے کی زد میں آکر کم از کم 22 افراد جان بحق  اور درجنوں زخمی بھی ہوئے۔ ان 22 افراد میں 3 ڈاکٹرز اور نرسز کے علاوہ متعدد مریض اور ان کے رشتہ دار بھی شامل تھے۔

اس حملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حملے کے بعد جب اسپتال کی عمارت کا ایک بڑا حصہ تباہ کردیا گیا تھا اور متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے تھے، تو اُس وقت ایم ایس ایف کے لئے کام کرنے والے افراد جانفشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمرے میں بچ جانے والے مریضوں اور زخمیوں کی جان بچانے کی تگ ودو کر رہے تھے۔ یقیناً یہی اس ادارے کا طرہ امتیاز ہے کہ اس کے لئے کام کرنے والے افراد اپنی جانوں کو جوکھوں میں ڈال کر دوسروں کی خدمت کرتے ہیں اور ان کی جانیں بچاتے ہیں۔ ادارے کے عالمی سربراہ کے مطابق افغان اور امریکی (نیٹو) افواج کو اس اسپتال کا واضح محل وقوع پہلے سے بتا دیا گیا تھا، کیونکہ عالمی سطح پر مروجہ جنگی اصولوں کے مطابق اسپتال اور اسکولوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ان احتیاطی تدابیر کے باوجود ایک اسپتال پر حملہ کرنا اور اس میں موجود مریضوں اور ڈاکٹروں کو نشانہ بنانا ایک ناقابلِ فہم عمل ہے اور اس سے حملہ کرنے والوں کی صلاحیتوں، نیتوں اور ان کے اصل اہداف پر سوال اٹھتا ہے۔ واقعے کے بعد طبیبانِ بے سرحد کے بینر تلے چلنے والے تمام اداروں، اس کے ہمدردوں اور انسانی حقوق کےعالمی اداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس حملے کی غیر جانبدارانہ اور آزاد ذرائع سے عالمی سطح پر تحقیق کی جائے، اور اس میں ملوث افراد، اداروں کا تعین کیا جائے اور اس کے محرکات معلوم کئے جائیں۔

اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز بھی کیا گیا ہے، جس میں دنیا بھر کے لوگ شریک ہوسکتے ہیں۔ آزاد تحقیقات کے مطالبے میں شامل ہونے کے لئے #Kunduz اور #independentinvestiation  ٹائپ کرکے آپ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

شرمناک بات یہ بھی ہے کہ حملے کے بعد افغانستان کی حکومت نے اِس خونریزی کو جائز قرار دینے کے لیے یہ بھونڈی دلیل دی کہ حملے کے وقت اسپتال میں طالبان جنگجو موجود تھے۔ اگر بالفرض یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اسپتال میں جنگجو موجود تھے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری عمارت کو متعدد مریضوں سمیت نیست و نابود کردیا جائے؟ بعض افراد اور اداروں، بشمول ایم ایس ایف نے اس حملے کو عالمی قوانین کے تحت ممکنہ طور پر قابلِ تعزیر جنگی جرم قراردیا ہے، اور حملے میں ملوث امریکی اور افغانی افواج کے خلاف تادیبی کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی حکومت نے اس حوالے سے تحقیقات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جبکہ امریکی ڈیفنس سیکریٹری نے کہا ہے کہ اس حملے میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کی جائیگی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ حقائق سامنے لانے میں وقت لگ سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عالمی ادارے، بالخصوص اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل، اس سلسلے میں اپنا کردار ادا سکتے ہیں یا پھر طاقتور ممالک کے دباؤ تلے تحقیقات کا گلا گھونٹ کر انصاف کو قتل کرنے کے جرم میں ایک بار پھر شریک ہوتے ہیں۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسپتال پر بمباری کرنے والوں کو سزا ہوپائے گی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

نور پامیری

نور پامیری

مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر لکھتے ہیں۔ ایک بین الاقومی غیر سرکاری ادارے میں کمیونیکیش ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آپ سے ٹوئٹر @noorpamiri پر کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔