وزیر اعظم کا ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب

شمال مغربی سرحد پر اس ڈھلمل پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان بتدریج دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے


Editorial January 24, 2016
وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کی مشینری کو اپنے ذمے کا کام سنجیدگی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعہ کو سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس سے خطاب کیا اور سائیڈ لائن پر پاتھ فائنڈر گروپ کے ناشتے کی تقریب میں شرکت کی۔

اس موقع پر وزیر اعظم نے سوئس اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے توانائی، ٹیلی کام، انفرااسٹرکچر، اربن ڈویلپمنٹ، ایگرو انڈسٹری اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ان شعبوں میں سرمایہ کاری کے بہترین اور پرکشش مواقع ہیں، حکومت تجارتی سرگرمیوں میں ہر ممکن امداد فراہم کریگی اس موقع پر وزیر اعظم نے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس پلان کے بہترین نتائج حاصل ہوئے ہیں اور داخلی سلامتی کی صورتحال میں بہتری سے معیشت بھی مستحکم ہوئی ہے۔

وزیر اعظم نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ملک میں ترقی و خوشحالی امن و امان سے منسلک ہے جس کے لیے حکومت نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کرایا جس کے نہایت مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر امن و امان کے صورتحال میں خاصی بہتری آئی ہے۔

پاکستان کے مشرقی اور مغربی پڑوسیوں یعنی بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان مذکورہ ملکوں کے ساتھ دو طرفہ تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے جب کہ افغانستان میں پائیدار امن چاہتے ہیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے چین کے تعاون سے شروع کیے جانے والے اقتصادی راہداری منصوبہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کی بدولت خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں انقلاب برپا ہو گا اسی بنا پر اس منصوبے کو ''گیم چینجر'' کا نام دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے سی پیک منصوبے پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس گیم چینجر منصوبے کی بدولت ٹرانسپورٹیشن، شاہراہوں کی تعمیر اور توانائی کے میدانوں میں ترقی ہو گی جس سے نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ وسط ایشیاء سے لے کر مشرق وسطی تک بلکہ افریقہ کے ممالک بھی اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے۔

وزیراعظم پاکستان نے ڈیووس میں جن ایشوز پر گفتگو کی ہے، وہ سب انتہائی اہم ہیں تاہم معاشی واقتصادی ترقی کے لیے جو منصوبے شروع کیے گئے ہیں اور دیگر شعبوں میں عالمی سرمایہ کاری کے لیے وطن عزیز میں جہاں سرمایہ کاری دوست پالیسی کی ضرورت ہے وہاں امن وامان کا قیام بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان کو خارجی سطح پر بھی اختلافات وتنازعات کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ بھارت اور افغانستان دو ایسے ہمسایہ ممالک ہیں جن کے ساتھ ہم آہنگی اور دوستی کے بغیر وطن عزیز پرامن نہیں رہ سکتا۔ آپریشن ضرب عضب کے مثبت نتائج اپنی جگہ لیکن خارجہ سطح پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مبہم رہی ہے۔ ہم نے اس ملک کو کبھی گہرے دوست کا درجہ دیا نہ ہی اسے بھارت کی طرح دشمن ملک قرار دیا اور نہ ہی افغانستان کو غیرجانبدار ملک سمجھا گیا۔ اس کے ساتھ سرحدی معاملات حل کرنے پر بھی کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ اس پالیسی کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ اسی پوزیشن پر ہے جب برصغیر پر انگریز کی حکمرانی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے بھی کبھی کوئی کام نہیں کیا گیا۔

لاکھوں افغان مہاجرین برسوں گزر جانے کے باوجود ابھی تک پاکستان میں مقیم ہیں۔ انھیں وطن واپس بھجوانے کا کوئی جامع پروگرام مرتب نہیں کیا گیا۔ جن لوگوں کو واپس بھجوایا بھی گیا وہ دوبارہ پاکستان آ گئے۔ شمال مغربی سرحد پر اس ڈھلمل پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان بتدریج دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے۔ اب اس معاملے کو حل کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ تنازعات حل کرنے کے معاملے کو بھی ترجیحی بنیادوں پر غور ہونا چاہیے۔

ایران کے ساتھ سرحدوں کو بھی محفوظ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جب تک یہ معاملات طے نہیں ہوتے، پاکستان میں بھی حقیقی معنوں میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک اندرونِ ملک دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹنے کا سوال ہے تو اس کے لیے بھی سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ پاک فوج نے اپنا کام کسی حد تک پورا کر دیا ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر دیے گئے ہیں۔ اب اگلا مرحلہ سول حکومت کا ہے۔

وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کی مشینری کو اپنے ذمے کا کام سنجیدگی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں سول انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی اور معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، وہاں سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کی ذہنی تربیت کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی اب روایتی طرز سیاست سے باہر نکل کر کام کرنا ہو گا۔ اگر پاکستان ان مقاصد کو حاصل کر لیتا ہے تو یہاں ایک آئیڈیل قسم کا انوسٹمنٹ فرینڈلی ماحول پیدا ہو سکتا ہے جو معاشی اور اقتصادی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

مقبول خبریں