لبرل اور ماڈرن

فرح ناز  ہفتہ 20 فروری 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

جب کہیں کوئی خلا آتا ہے تو اس کو پر کرنے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ آہی جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہماری زندگیوں میں جو بدلاؤ آرہا ہے یا جس طرح نوجوان نسل کو ہم آزادی اور ماڈرن ہونے کے راستے پر لے کر چل رہے ہیں۔ یہ بھی ہمارے معاشرے میں ہمارے اسلامی کلچر کے خلا ہونے کے نتیجے میں پیدا ہورہا ہے۔ نجانے کیوں ہم خوفزدہ ہورہے ہیں۔ اپنے دین سے، اپنے کلچر سے اور نجانے کیوں اپنی اولاد کو ماڈرن اور آزاد بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

سادگی والی آسان زندگی ہمیں کیوں پسند نہیں آرہی؟ دکھاوے اور پھیلاوے میں ہم اپنے آپ کو مصروف کرکے کیوں اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینا چاہتے ہیں، ایک صاف وستھری آسان زندگی جس میں جھوٹ اورمنافقت نہ ہو جس میں ہم سب کے لیے آسانیاں ہو اور سب سے اعلیٰ کہ ہماری نسل کے لیے ان کے آگے بڑھنے کے لیے ایک صاف ستھرا آسان راستہ ہو، بالکل ویسا ہے جیسا کہ ہم مسلمانوں کو اﷲ  دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’’اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو‘‘ بغیرکسی حیل وحجت کے بے شک اﷲ کا بتایا ہوا راستہ ہی بہترین ہوگا۔

میرے لیے بھی اورمیری نسل کے لیے بھی،اس کے باوجود بھی سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم کھائی میں گرنے کو تیار ہیں اورتکلیف بے حد اس لیے ہے کہ ہم اپنی اولاد کو اپنے بیٹے بیٹیوں کو اندھے کنویں میں خود اپنے ہاتھوں سے دھکیل رہے ہیں کہ صرف اس لیے کہ ہم لبرل بن جائیں۔ ماڈرن بن جائیں اوراس سوچ کو ہم کہاں تک لے کرجارہے ہیں۔اﷲ جانے یہ ہم سوچتے ہیں یا نہیں۔

14 فروری کی دھوم بہت خوب رہی۔ شاپنگ سینٹر لال غباروں سے بھرے ہوئے۔ جگہ جگہ سڑکوں پر لال کلرکی بھرمار رہی ، سنا ہے کہ سرخ گلاب بھی نہیں مل رہے تھے ۔ چاکلیٹ اورکیک کی فروخت بھی خوب اعلیٰ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچے ویلنٹائن ڈے منارہے ہیں اور خوب اعلیٰ منارہے ہیں، بیٹی باپ کو پھول دے رہی ہے، بیٹا ماں کو پھول دے رہا ہے۔ یعنی محبت کے اظہار کا دن ہمارے معاشرے میں منایا جا رہا ہے۔ اب یہ وقت ہم پر آگیا ہے کہ ہم بھی انگریزوں کے قدم بہ قدم چل رہے ہیں۔

وہ کیوں کہ بہت مصروف قوم ہے اور ان کے یوم ہیں، والدین Old Houses میں رہتے ہیں، اس لیے وہ بھی مدر ڈے منالیتے ہیں، کبھی فادر ڈے وغیرہ مگر یہ جو ہماری سوسائٹی ویلنٹائن ڈے منارہی ہے اس کا تعلق صرف اور صرف ایک لڑکے اور لڑکی کی محبت پر یورپ و امریکا میں منایا جاتا ہے، اس کا دور دور سے بھی ہم اور ہماری سوسائٹی کا تعلق نہیں۔اب وقت یہ ہے کہ لڑکیاں اپنے والدین کے سامنے پھولوں کے باکس اورگفٹ کی بکنگ کروا رہی ہوتی ہے اور وہ اپنے میل دوستیوں کو Wish بھی کررہی ہوتی ہے اور والدین کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا۔

نوجوان لڑکے اپنے والدین کے ساتھ  شاپنگ سینٹر سے اپنی  فیمیل دوستوں کے لیے گفٹ خرید رہے ہوتے ہیں اوراکثر اپنی والدہ ماجدہ سے مشورہ بھی لے رہے ہوتے ہیں اور والدہ ماجدہ بھی خوب مشورہ دے رہی ہوتی ہے۔اس لیے اس چودہ فروری کی بھی خوب گہما گہمی رہی اور سرخ رنگ چاروں طرف چھایا رہا، اس ڈگر پر ہم چل نکلے ہیں کہاں جائیںگے کچھ پتہ نہیں۔

گمراہی اور راست بازی ساتھ ساتھ چلاکر قوم کو الجھایا نہ جائے تمام لالچ و حرص کو دفن کر کے اپنی نوجوان نسل کو سنوارنے کے اقدامات فوری بنیادوں پر کرنے چاہیے۔

ایک زمانے میں جب پرائیویٹ اسکولز کا ٹرینڈ بڑھا، تو والدین اپنے بچوں کے لیے Co Education اسکول منتخب کرنے لگے تھے۔ پھر تجربات کچھ خطرناک ہوئے، نتیجے خلاف توقع نکلے اب پھر سے والدین کی خواہش ہے کہ سیکنڈری کلاسز لڑکے اورلڑکیوں کی الگ ہونی چاہیے اور جب والدین کی ڈیمانڈ بڑھی تو ان ہی پرائیویٹ اسکولز نے اپنی برانچزکو الگ الگ کیا۔ بالکل اسی طرح اب بھی والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ ان بے معنی، فضول اور بگاڑ پیدا کرنے والی رسموں کو Degrade کرنے اور اپنے بچوں کو اس طرف جانے سے روکیں۔

ہم تو ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جہاں والدین اولاد کے لیے رحمت و برکت ہوتے ہیں جہاں محبتیں کسی دن کی  محتاج نہیں، جہاں تحفہ و تحائف دینا سنت رسول ہے اور وہ کسی بھی و قت اور کسی بھی دن دیے جاسکتے  ہیں۔

اکثر لوگ جب اپنی گاڑیوں کو سگنلز پر روکتے ہیں تو موتیے کی لڑیاں اورگجرے خریدلیتے ہیں اچھی خوشبو کی وجہ سے ان لوگوں کی Help کے لیے جو یہ بیچ رہے ہوتے ہیں۔ گھروں میں لاکر بھی رکھ دیے جاتے ہیں۔ اپنے سینٹر ٹیبل پر رکھ دیے جاتے ہیں اور یہ کوئی آج کی بات نہیں کئی سالوں سے ایسا ہوتا رہا ہے مگر آج جب ایک دکھاؤے کی صورت میں ہورہا ہے تو بے حد  مصنوعی اور بے معنی ہے۔

اس کا کوئی اثر نہیں اس کا کوئی انداز نہیں، فضول اورگمراہی  ہے۔ اﷲ ہم سب پر رحم کرے اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ جہاں ہم بھٹکنے والے بن گئے ہیں وہاں ہمیں بھٹکانے والے بھی اپنی ماڈرن شکلیں بناکر بھٹکا رہے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ  یہ جو بھٹکانے والے ہیں یہ باقاعدہ Paid ہوتے ہیں اورایک ایجنڈا لے کر چل رہے ہوتے ہیں مگر جو بھٹک رہے ہیں وہ بے چارے اپنے آپ کو ماڈرن اور لبرل بننے کے چکر میں نہ ادھر کے اور نہ ادھر کے ہیں۔

اساتذہ، والدین، ادیب، شاعر اور تمام لکھنے والے اپنی اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور سچائی کے ساتھ قلم کو طاقت بنائیں۔ اس نازک وقت میں ہماری نوجوان نسل کو صحیح رہنمائی کی شدید ضرورت ہے ورنہ ہم ایسی گمراہی میں چلے جائیں گے کہ جہاں نہ دنیا ہوگی اور نہ دین، ترقی و کامیابیاں ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے، بہتر زندگی، آسان اورآرام دہ زندگی کا سفر، اگر اس کی کوئی بھی انسان یا شہری خواہش رکھتا ہے تو بے جا نہیں، ان خواہشات کو منفی طرف کھینچنا یا اندھیروں کی طرف دھکیلنا بالکل مناسب عمل نہیں، جوکلچر دکھایا جارہا ہے پھیلایا جارہاہے وہی ہو بھی رہا ہے اور پھر تکلیفیں اور بے عزتیاں عام بھی ہوتی جارہی ہے، جو جس کا مقام ہے وہ اسی پر سجتا ہے۔

ویسٹرن کلچر ہمارے کلچر سے بالکل مختلف کلچر ہے تو ہمارا فیملی سسٹم ہے وہ ان کا نہیں جو ہماری روایات ہے وہ ان کی نہیں، آخر ہم ہی کیوں ان کی نقل کرتے ہیں، وہ ہماری نقل کیوں نہیں کرتے؟

اگر ہم اپنے آپ کو جاہل اور پسماندہ سمجھتے رہیںگے تو اسی طرح  بھٹکتے رہیںگے، محبتیں بانٹیں اور محبتیں پھیلائیں یہ  رہتی دنیا تک ہوتا رہے گا کیوں کہ یہی اﷲ کا حکم ہے مگر جاہلانہ طریقوں سے بچیے اور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں، عزت و احترام، پیار، شفقت اور ایک دوسرے کی مدد، ایک دوسرے کے کام آنا، خدمت خلق، یہی سب ذریعے ہیں محبتیں پھیلانے کے لیے، فضول کام، بے جا اسراف، ہمیشہ ناپسندیدہ عمل رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔