تاریخ کے سامنے سرخرو ہونے کا عزم

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان پیپلز پارٹی وطن عزیزکی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت ہے


Sehar Siddiquie November 16, 2012
سحر صدیقی

سیاسی مبصرین کی یہ رائے انتہائی مستند اور معتبر تصور کی جاتی ہے کہ وطن عزیز میں آیندہ سال ہونے والے انتخابات کے لیے عوام ذہنی طور پر تیزی سے تیار ہو رہے ہیں ۔

کم و بیش تمام اہم سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی حکمت عملی کو آخری شکل بھی دینے میں مصروف ہیں ۔ یہ امر بھی خوش آیند اور حوصلہ افزاء قرار دیا جا سکتا ہے کہ عوام آیندہ الیکشن میں کسی سیاسی جماعت کے حق میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یعنی اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے مذکورہ سیاسی جماعت کی کارکردگی اور منشور کی وسعت و افادیت کو پیش نظر رکھیں گے۔ اس تناظر میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور عوامی سطح پر ان کی خدمات رائے عامہ پر آشکار ہیں جب کہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کو عوام کی حمایت اور تائید حاصل کرنے کے لیے بلاشبہ سخت محنت درکار ہوگی ۔

اتحادی حکومت نے گذشتہ ساڑھے چار سال کے عرصے میں عوام کے مسائل کو حل کرنے ، اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے اور سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی کے لیے جو جدوجہد کی ہے ، عوامی حلقوں میں اس کا اعتراف کیا جا تا ہے ۔ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت بہرحال مدنظر رہنی چاہیے کہ 2008 میں جب موجودہ حکومت نے اپنی ذمے داریاں سنبھالی تھیں تو اس وقت وطن عزیز کے سیاسی ، معاشی اور سماجی حالات کیا تھے اور عوام کو درپیش مسائل کی سنگینی کا کیا عالم تھا ؟ اتحادی حکومت نے جمہوریت کے عمل کو کامیابی سے جاری رکھنے ، قومی معیشت کو مستحکم کرنے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے محدود قومی وسائل کو حقیقت پسندی کے ساتھ استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی اور اس سفر میں کامیابی کے کئی سنگ میل عبور کیے۔

حکومت نے1973 کے آئین کو آمروں کے لگائے ہوئے داغوں سے پاک کیا ، بلوچستان کے عوام کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے ''آغاز حقوق بلوچستان'' سمیت کئی ٹھوس اقدامات کیے ، غریب ، بے وسیلہ اور مستحق افراد کی مدد کے لیے ''بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام''کا آغاز کیا، جب کہ پاکستان بیت المال کے توسط سے بھی مالی اعانت کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ملکی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے محاذ پر بھی حکومت کی کارکردگی کو عوام تسلی اور تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عوام کو ہنوز مہنگائی ، بے روز گاری ، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی ایسے مسائل کا سامنا ہے لیکن عوام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ موجودہ حکومت ان مسائل کی ذمے دار ہر گز نہیں بلکہ یہ مسائل حکومت کو ورثے میں ملے اور حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جن کے خوشگوار نتائج تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان پیپلز پارٹی وطن عزیزکی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت ہے جس نے ہمیشہ عوام کی حمایت اور تائید سے ایوان حکومت تک رسائی حاصل کرکے عوام کی خدمت کرنے کی روایت کو معتبر بنایا ۔ اب جب کہ الیکشن 2013ء کا چرچا عام ہورہاہے تو پیپلزپارٹی بھی انتخابی معرکے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر رہی ہے ۔ اس حوالے سے ملکوال میں منعقد ہونے والی اس عید ملن پارٹی کو قومی سیاسی حلقوں میں اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جو صدر مملکت آصف علی زرداری کے اعزاز میں منعقد کی گئی اور جو عوام کی ولولہ انگیز شرکت کے نتیجے میں ایک عوامی جلسے کا روپ اختیار کر گئی۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے ملک و قوم کو درپیش چینلجز سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو پیش کش کی اور کہا کہ کراچی کے حالات ریاست کی ناکامی نہیں۔

کراچی کو ہماری توجہ ہٹانے کے لیے نشانہ بنایا گیا اور کراچی میں ملک دشمن عناصر انتشار پھیلا رہے ہیں ۔ سیاست کودشمنی میں نہیں بدلنا چاہیے۔ اگرملک ڈوبا تو ہم سب ڈوبیں گے۔ہمیں ملالہ کی سوچ کو ختم کرنے والوں کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی۔ ملک اور عوام کو ضرورت ہوئی تو ہم اپنے پیٹ پر پتھر باندھیں گے۔جمہوریت کسی پر احسان نہیںاور جمہوریت نے ابھی پروان چڑھنا ہے ۔ اگر کسی کی سوچ ہے کہ وہ ہمیں روک سکے گا یا پاکستان کو کنٹرول کر سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ میں نے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ پارلیمنٹ ہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ انھوں نے یقین دلایا کہ عام انتخابات وقت پر ، منصفانہ اور شفاف ہونگے ۔عوام جس جماعت کو منتخب کریں گے وہ اس سے حلف لیں گے۔ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا۔ عوام نے جس پارٹی کو منتخب کیا ،ہم اقتدار اسے منتقل کر دیں گے۔

صدر زرداری نے بتایا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے تمام ضروری اقدامات کر لیے گئے ہیں جن کا اظہار ووٹر ز لسٹوں کی تیار ی اور با اختیار چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سے ہوتا ہے ۔ ہمارا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے لہذا تمام سیاسی قوتیں پاکستان کو مستحکم بنانے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ صدر نے واضح کیا کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے وہ تمام سیاسی جماعتوں سے اشتراک عمل چاہتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ میں لڑنے والا انسان نہیںہوں ۔ درد سہنے والا زیادہ بہادر ہوتا ہے۔ میں نے اپنی جوانی کے بہترین دن پنجاب کی جیلوں میں گزارے ۔

دوران اسیری پنڈی، لاہور اور اٹک میں ملاقات کے لیے آنے والے لوگ آج بھی مجھے یاد ہیں ۔اب مجھے لاہور آکر بیٹھنا ہے اور میں عوام سے رابطہ میں رہوں گا۔آج تک کسی پٹواری نے اپنے اختیارات کسی دوسرے کو نہیں دیے جب کہ میں نے اپنے تما م اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیے ہیں اور اس کا صلہ مجھے تاریخ دے گی ۔ یہ فیصلہ تاریخ کرے گی کہ ہم درست ہیں یا وہ درست ۔ہم تاریخ کے سامنے سرخرو ہونے کا عزم رکھتے ہیں ۔آج تاریخ بتا رہی ہے کہ بے نظیربھٹو کے ووٹ بینک پر ڈاکہ ڈالا گیا۔

صدر مملکت نے کہا کہ ملک ترقی کرے گا تو ہم سب ترقی کریں گے ۔ میں نے گڑھی خدا بخش میں یہ ذمے داری قبول کی تھی کہ یہ قافلہ مجھے چلانا ہے۔ ہم عوام کے تعاون اور حمایت سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے چنانچہ اب پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا جارہا ہے اور جمہوریت کو فروغ حاصل ہورہا ہے لیکن حقیقی جمہوریت کو ابھی آنا ہے۔ یہ پودا جوان نہیں ہوا ۔ ہماری خواہش ہے کہ عام آدمی کے بچے کی تکالیف کم ہوں۔ کوئی بھی ملک جتنا بھی بڑا ہو ہمیں ڈرا دھمکا نہیں سکتا۔ ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات اچھے رکھنے چاہئیں ۔ ترکی ، چین اور سعودی عرب نے ہماری ساتھ بہت تعاون کیا ۔ ترکی نے پنجاب میں کئی ترقیاتی کام کیے۔میں نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ خود میں صبر و تحمل اور برداشت کی صلاحیت پیدا کریں اور اس صلاحیت میں اضافہ کریں۔ انشاء اللہ ہم اپنی اجتماعی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اکیسویں صدی میں پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنائیں گے۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اس بات کا واضح اور بین ثبوت ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی وطن عزیز میں جمہوری عمل کے تسلسل کی خاطر اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے مستعد اور تیار ہے۔ پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کو آیندہ الیکشن کے نتائج اوراقتدار سے زیادہ اس بات کا احساس اور خیال ہے کہ تاریخ ان کو اپنے صفحات میں کس نام سے یاد کرے گی ۔

مقبول خبریں