رانی کے مسئلہ پر کون لکھے گا

نہیں باجی۔ میرا شوہرایسا نہیں ہے۔ وہ تو دن بھرکام سے رات کو آتا ہے اور کھانا کھا کر سوجاتا ہے۔ رانی نے فخر سےجواب دیا


روبینہ فرید April 26, 2016
دیکھو بھئی رانی۔ ان دانشوروں کو بڑے بڑے اہم مسائل پر لکھنا ہوتا ہے۔ تم نے تو بڑا عام سا مسئلہ بیان کیا ہے لیکن پھر بھی میں تمہاری بات ان تک پہنچا دوں گی۔

DERA ISMAIL KHAN: صبح میاں اور بچوں کو گھر سے رخصت کرتے ہی ہماری ماسی رانی کے آنے کا وقت ہوجاتا ہے۔ ہمارا اخبار والا اخبار تھوڑی دیر سے ڈالتا ہے لہذا اخبار کے انتظار کے وقت میں ماسی سے کام کروانے کے ساتھ ساتھ نیٹ پر اپڈیٹس دیکھنے میں گزارتی ہوں۔ دلچسپ خبریں ماسی کو بھی سناتی رہتی ہوں اور وہ خود بھی گاہے بگاہے تصویریں دیکھنے کے لئے اسکرین پر نظر ڈالتی رہتی ہے۔

کل جب وہ جھاڑو دیتے دیتے میرے پیچھے آکر کھڑی ہو گئی تو ''سماجی رابطے کی ویب سائٹ'' کے پیج پر دانشوروں کے چہرے دمک رہے تھے۔

باجی۔ یہ سب کون ہیں؟" رانی نے پوچھا۔

یہ ہمارے ملک کے دانشور ہیں جو ملک کے بارے میں مضامین لکھتے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔

باجی۔ کیا حکومت ان کی بات سنتی ہے؟

ہاں شاید، میں نے کچھ تذبذب سے کہا۔ (اب اسے کیا بتانا کہ ہر لکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ حکومت اس کا کالم پڑھ کر اپنی پالیسیز بناتی ہے)

باجی، کیا یہ دانشور عورتوں کے مسائل پربھی لکھتے ہیں؟

ہاں ہاں۔ عورتوں کے مسائل پر تو یہ بہت شوق سے لکھتے ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو مردوں کے مسائل پر اتنا نہیں لکھتے جتنا عورتوں کے مسائل پر لکھتے ہیں۔ بلکہ عورتوں کے جن مسائل کا انہیں صحیح سے علم بھی نہیں ہوتا اس پر بھی بہت دلجمعی سے لکھتے ہیں۔ تم بتاو تو سہی تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ کیا شوہر گھر میں تم پر تشدد کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کڑا ڈلوانا ہے؟۔

نہیں نہیں باجی۔ میرا شوہر ایسا نہیں ہے۔ وہ تو دن بھر کام سے تھک کر رات کو آتا ہے اور کھانا کھا کر سو جاتا ہے۔ رانی نے فخر سے جواب دیا۔

اچھا تو پھر راستے میں کوئی تمہیں آتے جاتے تنگ کرتا ہے۔ تیزاب پھینکنے کی دھمکی دیتا ہے؟ میں نے پوچھا۔

ایسے کیسے کوئی ستائے گا؟ رانی نے تپ کر کہا۔ ہاتھ نہ توڑ دوں میں اس کے۔

اچھا تو پھر تمہارا شوہر تمہاری کم عمر بچی کا رشتہ کسی بڑے عمر کے مرد سے کر رہا ہوگا۔ میں نے اپنا قیاس ظاہر کیا۔

نہیں باجی۔ میرا شوہر تو بڑے شوق سے بچی کو اسکول میں پڑھا رہا ہے۔ وہ تو اسے استانی بنانا چاہتا ہے۔

او ہو۔ رانی۔ ہاٹ ایشوز میں سے تو کوئی بھی ایشو تمہارا ہے ہی نہیں۔ میں نے دل میں سوچا۔

اصل میں باجی۔ میرا جو مسئلہ ہے نا وہ ہماری بستی کی سب عورتوں کا مسئلہ ہے۔ ابھی کل آپ نے پیسے دئے تھے نا تو میں برابر والی کے ساتھ راشن لینے گئی تھی۔ رانی خود ہی رواں ہو گئی۔ تو دکاندار کہنے لگا دالیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ ایک کلو پر 15 روپے اضافہ ہوگیا ہے باجی۔ ہمارا گزارا تو دالوں پرہی ہوتا ہے۔ کبھی کبھار سبزی خرید لیتے ہیں۔ وہی مہنگی ہوگئیں تو ہمارا گزارا کیسے ہوگا؟ میری پڑوسن بھی پریشان تھی۔ کہنے لگی ابھی اس کا بچہ ایک سال کا ہوا ہے، لیکن اس نے بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے۔ پتلی دال پکا کر اس میں روٹی نرم کرکے اسے کھلاتی ہوں۔ اب اتنے پیسوں میں تو دال بھی پہلے سے کم ملی ہے۔ مہینہ کیسے پورا ہوگا؟ باجی۔ ان لوگوں سے بولیں کہ حکومت سے کہیں کہ غریبوں کے کھانے والی چیزیں مہنگی نہ کیا کرے ورنہ ہمارے بچوں کو بھوکا رہنا پڑے گا۔ باجی بولیں گی نا۔ رانی نے بڑی آس سے میری طرف دیکھا۔

دیکھو بھئی رانی۔ ان دانشوروں کو بڑے بڑے اہم مسائل پر لکھنا ہوتا ہے۔ تم نے تو بڑا عام سا مسئلہ بیان کیا ہے لیکن پھر بھی میں تمہاری بات ان تک پہنچا دوں گی۔ آگے ان کی مرضی۔ تو صاحبانِ دانش۔ رانی کا مسئلہ آپ تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ ''رانی کے مسئلے پر کون لکھے گا''؟

[poll id="1083"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

مقبول خبریں