عدالتیں، پولیس اور عورت

فرح ناز  ہفتہ 28 مئ 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے۔ عورت کے قدموں تلے جنت ہے۔ بے انتہا خوبصورت مرتبہ عورت کا اﷲ نے دیا اور عورت پر بے انتہا ذمے داریاں بھی ڈالیں اور اس کو معتبر بھی بنادیا۔ پھر بحیثیت مسلمان ہماری عورت ایک Objective کیوں؟

جب اللہ نے عورت کو حقوق دیے اور ریاست بھی اسلامی ہے تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو عورت کے حقوق غصب کرتے ہیں اور بے انصافی کی سندیں پاس کرتے ہیں۔

کوئی شک نہیں کہ عورت نے اپنی عزت، اپنی قدر کو اپنے ہی ہاتھوں ملیا میٹ کردیا ہے اور کر رہی ہیں مگر ریاست اور اعلیٰ ادارے تمام شہریوں کے حقوق کی بات کیوں نہیں کرتے، کیوں نہیں ہم انسانوں کی طرح زندگی گزارتے، کیوں جنگل اور جنگل کا قانون اپنی جگہ بنا رہا ہے۔

سول حکومت بے بس نہیں بلکہ اب اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کے معتبر ادارے، پاکستان آرمی اور پاکستان رینجرز ان کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔ اگر جذبے اور عقل صحیح سمت ہو تو کوئی مشکل نہیں کہ ہم اور ہمارا معاشرہ صحیح ڈگر پر چل پڑے۔ جو خرابیاں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں خاص طور پر خواتین اور ہمارے نوجوانوں میں، ان پر شدید محنت اور توجہ درکار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام بنیادی حقوق کی پاسداری بھی ہم پر لازم ہے۔ جتنی قدر و قیمت پیسے کی ہوتی جا رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ پیسہ خدا تو نہیں مگر خدا سے کم بھی نہیں۔

غلیظ سوچوں سے بھرا ہوا ایک طبقہ مسلسل ہمارے معاشرے پر گندگی اور غلاظت کی تہیں چڑھا رہا ہے اور اس کے لیے خواتین کا استعمال ایسے ہو رہا ہے کہ جیسے ٹشو پیپرز۔ تمام ان کے حقوق غصب کرلیے جاتے ہیں اور بے بسی کی ایک ایسی تصویر بنادیا جاتا ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کو اتنا بے بس اور مجبور بنادیا جاتا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اقدام اٹھانے پر مجبور ہوجاتی ہیں جس میں ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ کبھی ان کو جلا دیا جاتا ہے، کبھی ان کو قتل کردیا جاتا ہے، کبھی ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، کبھی ان کے بچوں کو ان کے سامنے قتل کردیا جاتا ہے اور درندگی کے وہ تمام طریقے اپنائے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! مگر افسوس یہ ہوتا ہے کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے، جس کے بانی قائداعظم اور جس کی تحریریں علامہ اقبال اور سرسید احمد خان جیسے پایے کی ہستیاں کرتی ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ آج کل اسپتال میں معذور بچیاں اور ایمرجنسی میں پڑی ہوئی عورت بھی محفوظ نہیں، اسپتال میں بھی جنسی درندگی کا شکار اور زندہ معاشرے میں جنسی درندگی کا شکار، استغفراللہ! یہ حال ہوگیا ہے ہمارا، نہ دین کے نہ دنیا کے۔ عورت کی عزت و حرمت ہم سب پر لازم ہے، چاہے وہ کسی بھی روپ میں ہو۔ وہ ماں ہے، بیٹی ہے، بہن ہے، بھابی ہے، دوست ہے اور بھی کوئی رشتہ، مگر واجب ہے کہ اس کی عزت برقرار رکھی جائے۔

ہم سب کا فرض ہے اور ریاست کی ذمے داری۔ ہماری عدالتوں میں عورتوں کے تمام کیسز کو بہت ذمے داری سے نمٹایا جائے، جس طرح ایک عورت ایک خاندان بناتی ہے بالکل اسی طرح ایک خراب عورت ایک پورا خاندان تباہ و برباد بھی کردیتی ہے اور اس خراب عورت کو بنانے میں ریاست سے لے کر عام آدمی بھی ذمے دار ہے۔ عورتوں کو تحفظ دینا نہ صرف ریاست بلکہ عدالت اور پولیس کی پوری ذمے داری ہے نہ کہ ان کو ناسور بنایا جائے۔ کچھ خواتین اور مرد حضرات بے حد دل و جان سے اس مشن پر پیرا ہیں کہ خواتین کو ATM کارڈ بنادیا جائے اور نہ صرف ان کا استعمال غلط اور ناجائز ہو بلکہ ان کو استعمال کے بعد بدنام کر کے مار دیا جائے۔

پیسے کی چمک نے انسانوں کو جانوروں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے، غلاظت اور گندگی بہت تیزی سے اپنی جگہ بناتی جا رہی ہے اور جنگل کا قانون انسانوں کو کھانے کے لیے بھی تیار ہے۔ جاگیردارانہ نظام اور وڈیرہ نظام، جہالت کی بلندیوں پر ہے اور اپنی نحوست کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں۔ جس طرح پاکستان آرمی دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے آپریشن کر رہی ہے اسی طرح ان نظاموں کے خلاف شدید آپریشن کی ضرورت ہے اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق اور ان کے لیے انصاف کے حصول ریاست کی بڑی ذمے داری ہے۔

اور اب اس میں کوئی کوتاہی مناسب نہیں، پوری دنیا میں اسلامی ممالک کے علاوہ باقی ممالک میں خاص طور پر امریکا، یورپ میں عورتوں کے حقوق پر بہت کام ہوتا نظر آتا ہے، شادی کوئی جرم نہیں ہے اور نہ ہی طلاق یا علیحدگی کوئی جرم ہے۔ اللہ نے تمام حقوق کھول کھول کر بیان کیے ہیں۔ یورپ میں ان ہی اللہ کے احکامات کی پیروی نظر آتی ہے اور ہمارے ہاں قتل و غارت گری کے سوا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی امراض، جسمانی امراض تیزی سے معاشرے میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں، عورتیں بے انتہا ذہانت اور ذمے داریاں نبھاتے ہوئے بھی غلاظت کی گندگی میں ڈوبتی جا رہی ہیں۔

ابھی کچھ ہی دنوں میں نے ایک خاتون کو ٹریس کیا، وہ ایک دفتر میں Editing پر فائز ہے، میاں سے علیحدگی ہوچکی ہے۔ ایک معذور لڑکی، ایک لڑکا اور لڑکی اس کے ہیں۔ یہ خاتون پہلے بفرزون کے بہت ہی خستہ فلیٹوں میں رہتی تھیں، ان خاتون سے ایک خاتون نے رابطہ کیا، زکوٰۃ اور دیگر امداد کی مد میں مختلف مرد حضرات سے ان کو ملوایا، ویسے بھی ملازمت تھی، جلدی ہی ان خاتون نے اپنی کارکردگی کو بلند کرلیا اور آج کل وہ اپنی ہی طرح کی دوسری خواتین کی مدد کر رہی ہے، جو مرد حضرات اس خاتون کے ساتھ ہیں وہ بھی خود اس کے ذریعے سے اپنے کاروبار کو بڑھاوا دے رہے ہیں، ذلت و پستی کیا اسی طرح پھیلتی رہے گی؟

کیا ہمارے بچوں کا حال اور مستقبل ہوگا؟ اس طرح کی ریاست میں جہاں مرد اپنے عیش و آرام کے لیے اپنی کمائی کا ذریعہ عورت کو بنالیں۔ لعنت ہے اس معاشرے پر اور بے حس ہے ریاست۔ پولیس اپنے اپنے علاقے میں رہنے والے لوگوں کی جان و مال کی محافظ ہے نہ کہ شریف لوگوں کے گھر میں لوٹ مار کرنے کی مجاز ہے۔ تعلیم کی قلت اور روپے پیسے کا لالچ پولیس میں حد نگاہ تک کرپشن کا ذریعہ ہے اور ہمارے لیے باعث ذلت ہے یہ کہ یہ محافظ اور انصاف فراہم کرنیوالے ادارے خرید و فروخت کا بھی ذریعہ ہے اور ہم سب کی تباہی کا باعث ہیں۔ 50 روپے چوری کرنیوالا بچہ جیل میں اور لاکھوں کروڑوں کمانے والے باہر کے ممالک میں شاندار محلوں میں مقیم۔

غربت و افلاس، بے بسی، بے چارگی اور کسی طرف سے بھی مدد نہ ملنے کے باعث ہماری عورت جس ذلت میں گھرتی جا رہی ہے وہ لمحہ فکریہ ہے، تمام خواتین کی فلاح و بہبود کے ادارے اور این جی اوز اگر زیادہ زور دار آواز بلند کرتے ہیں تو ان کو دبانے کے لیے ہمارے اسلامی اسکالر اس سے بھی زور و شور سے بات کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو لڑوانے کے لیے بے انتہا غلیظ سیاست کا استعمال ہوتا ہے، جس طرح پنجاب میں عورتوں کے لیے قانون بنایا گیا اسی طرح پورے ملک میں خواتین کے لیے قوانین نہ صرف بنائے جائیں بلکہ ان کو لاگو کیا جائے۔

خواتین کو ملازمت کے دوران ڈرایا دھمکایا نہ جائے۔ ان کو جنسی درندگی کی نظر سے نہ دیکھا جائے، ایسے قوانین بنائے جائیں کہ گھر، ملازمت، کاروبار تمام جگہوں پر ان خواتین کو پورا مقام حاصل ہو۔ مرد کو ایک مرد بن کر اپنی ذمے داریاں نبھانی ہیں۔ نوجوان نسل کو بھی اپنی ماؤں، بہنوں میں عزت ملے گی تو یقیناً ان کی سوچ بھی بہتر ہوگی۔ منفی سوچیں اور منفی رویے کبھی بھی ایک بہتر معاشرہ نہیں بناسکتے۔ حقوق، انصاف، بنیادی ضروریات کی فراہمی کی اولین ترجیح!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔