نظام سقہ

امجد اسلام امجد  ہفتہ 5 جنوری 2013
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

نظام سقہ کے تاریخی کردار پر ممتاز مفتی مرحوم نے ایک ڈرامہ لکھا جو اکثر اسٹیج ہوتا رہتا ہے۔ پرسوں دی یونیورسٹی آف لاہور کے کچھ طلبہ و طالبات میرے پاس اسی ڈرامے کا ایک دعوت نامہ لے کر آئے جو وہ تین دن کے لیے پیروز آڈیٹوریم میں اسٹیج (Stage) کر رہے ہیں۔ میں نے ان سے مشروط وعدہ تو کر لیا کہ میں ان کا تین جنوری کا شو دیکھوں گا مگر دھند اور رحمٰن ملک کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا کہ 4 جنوری کی صبح مجھے ایک ہفتے کے لیے ہانگ کانگ جانا ہے جب کہ دھند کی وجہ سے میرے بہت سے متعلقہ کام وقت پر مکمل نہیں ہو سکے اور رہی سہی کسر رحمٰن ملک صاحب کی ’’موبائل ڈپلومیسی‘‘ نے پوری کر دی لیکن یہ سب تو بعد کی باتیں ہیں ۔

جب ان بچوں نے یہ بتایا کہ یہ کھیل پیروز کے آڈیٹوریم میں کھیلا جا رہا ہے تو میرا ذہن فوراً فیضان پیرزادہ اور اس کی اچانک موت کی طرف منتقل ہو گیا کہ اگرچہ ’’پیروز‘‘ کے پیچھے پانچوں پیرزادہ برادران یعنی سلمان‘ عثمان‘ عمران‘ سعدان اور فیضان کا ہاتھ ہے لیکن عملی طور پر اس کی تشکیل تنظیم اور ترقی میں زیادہ کام سب سے چھوٹے جڑواں بھائیوں سعدان اور فیضان کا ہے اور ان دونوں میں بھی فیضان مرحوم وہ ماسٹر مائنڈ تھا جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور ایسے اچھوتے آئیڈیاز پر ایسے انوکھے اندز میں عملی پیش رفت کی کہ چند ہی برسوں میں پیرزادہ برادرز کا نام ملک کے اندر اور باہر شوبز کی دنیا میں ایک معتبر حوالے کی حیثیت اختیار کر گیا۔

اتفاق سے میرا براہ راست قریبی تعلق اس کے دو بڑے بھائیوں عثمان اور عمران کے ساتھ رہا ہے لیکن فیضان سے جب بھی ملاقات اور بات ہوئی یا اس کا کوئی فیسٹیول یا پروگرام دیکھنے کا موقع ملا یہی محسوس ہوا کہ (کم از کم پاکستان کی حد تک) آپ وقت سے کچھ آگے آگئے ہیں۔ پپٹ تھیٹر ہو‘ صوفی فیسٹیول یا کوئی اور پروگرام وہ جس سلیقے سے دنیا بھر سے نامور فن کاروں کو جمع کرتا اور ایک اعلیٰ سطح کے میلے کا سا ماحول پیدا کر دیتا اور انتہائی جدید اور منضبط انداز میں مہمانوں کے آنے جانے‘ رہنے اور ان کو اپنا اپنا کمال فن دکھانے کی سہولت فراہم کرتا وہ ایک غیر معمولی تنظیمی صلاحیت کا بہترین اظہار تھا۔

گزشتہ چند برسوں سے ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے باہر سے لوگوں کو بلانا اور بڑے پیمانے پر جدید انداز کے پروگرام کرنا ممکن نہیں رہا تھا جب کہ دوسری طرف سے ادارہ ہر اعتبار سے پھیلتا چلا جا رہا تھا۔ اس ہاتھی کو پالنے کے لیے بہت محنت اور کوشش کے بعد پیروز نے بچوں کے مشہور زمانہ ٹی وی پروگرام ’’سیسمی اسٹریٹ‘‘ کو اردو میں پیش کرنے کا خاصا بڑا کنٹریکٹ حاصل کیا جس کے اسکرپٹ کے ایڈوائزرز میں ایک حد تک میں بھی شامل تھا ۔

اگرچہ اس ضمن میں میرا رابطہ زیادہ تر عمران پیرزادہ سے رہا لیکن مجھے یہ پتہ چلتا رہا کہ اس کارنامے کا بیشتر کریڈٹ فیضان مرحوم کو ہی جاتا ہے کہ اس نے بڑی مہارت اور خوش اسلوبی سے بے شمار مشکلات کے باوجود اس پروگرام کے متعلقہ ڈائریکٹرز اور افسران کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ نہ صرف ان کو اس ذمے داری کا اہل گردانیں بلکہ اس کے کرداروں‘ واقعات اور ماحول کو پاکستان کی ثقافت کے مطابق ڈھالنے کے لیے خصوصی اجازت بھی دیں۔

یہ بات اس لیے بہت اہم ہے کہ عموماً گورے اپنی تمام تر ذہنی ترقی کے باوجود ایک عجیب طرح کے احساس برتری میں مبتلا رہتے ہیں اور اپنے قائم کردہ معیارات میں کسی تیسری دنیا یا رنگدار نسل کے شخص کی دخل اندازی ایک ناقابل معافی جرم تصور کرتے ہیں اور غالباً یہیں سے اس بدمزگی کا آغاز ہوا جو آگے چل کر مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ایک ایسی بداعتمادی کی شکل اختیار کر گئی جس کے نتیجے میں چار سیزنز پر مشتمل اس سیریز کا دوسرا سیزن مختلف طرح کے اختلافات کا شکار ہو گیا۔ قریبی احباب نے بتایا کہ اس کی وجہ سے فیضان پیرزادہ ان دنوں سخت ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور عین ممکن ہے کہ تقدیر کے مقرر کردہ وقت کا ایک بہانہ یہ صورتحال بھی بنی ہو۔

بات شروع ہوئی تھی ایک طلبہ گروپ کے تیار کردہ اسٹیج ڈرامے ’’نظام سقہ‘‘ سے جسے یونیورسٹی آف لاہور کی ڈرامیٹک سوسائٹی پیرزادہ فیملی کے پیروز ریستوران والے کلچر کمپلیکس میں پیش کر رہی ہے اور اسی حوالے سے فیضان پیرزادہ کا ذکر بھی بیچ میں آ گیا جو ابھی حال ہی میں ہم سے جدا ہوا ہے جیسا میں نے شروع میں عرض کیا کہ یہ کھیل گزشتہ 40 برس میں‘ میں (اداکاروں اور ڈرامہ گروپس کی تبدیلی سے قطع نظر کئی بار دیکھ چکا ہوں اور بلا شبہ مغل بادشاہ ہمایوں کے دور کا وہ واقعہ بھی بیشتر قارئین کے علم میں ہو گا جب دریا میں ڈوبتے ہوئے بادشاہ کو نظام نامی ایک سقہ نے بچایا تھا اور بادشاہ نے اپنے اقتدار کی بحالی کے بعد انعام کے طور پر اس کی خواہش کے مطابق اسے ایک دن کے لیے بادشاہ بنا دیا تھا اور ایک ‘ روایت کے مطابق اس نے اپنی چمڑے کی مشک کے حوالے سے 24 گھنٹے کے لیے ’’چام کے دام‘‘ جاری کروا دیے تھے۔

اب اگرچہ ہمارے ملک میں آئے دن کی موبائل سروس پر پابندی کا کوئی تعلق نظام سقہ اور اس کے ’’چام کے دام‘‘ والی اسکیم سے نہیں بنتا مگر پاکستانی قوم کی حس مزاح کا کیا کیجیے کہ جو دن رات طرح طرح کے مسائل اور مصائب میں مبتلا ہونے کے باوجود چیزوں کے عجیب عجیب رشتے دریافت کر لیتی ہے۔ میری میز پر ’’نظام سقہ‘‘ ڈرامے کا کارڈ دیکھ کر ایک دوست نے جب اس کا رشتہ حکومت کے اقدامات سے جوڑنا شروع کیا تو ساری محفل کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔