اشتہارات اور اُن کے اثرات

اکثراشتہارات دیکھ کر چھوٹے بچوں کے ذہن میں شاید یہی خیال پروان چڑھتےہوں کہ پیسہ ہونیکی صورت میں ہی یہ سب مزےہوسکتے ہیں


روبینہ فرید February 21, 2017
ہمارے معاشرے میں جائلڈ لیبر کی مذمت اور اِس کی روک تھام کے لیے بات تو کی جاتی ہے، لیکن اِس طرح کے اشتہارات کو روکنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی جاتی. فوٹو: فائل

نجی ٹی وی کی خاتون اینکر کا فوکس اُس وقت 8 سے 12 سال کے چار معصوم بچوں پر تھا جو سامنے موجود چوڑیوں پر مسالہ لگا کر اُن پر چمکدار موتی لگانے میں مصروف تھے۔ 'کیا آپ کو یہ کام کرنا اچھا لگتا ہے؟' مائیک ایک بچے کے سامنے تھا،

نہیں! اچھا نہیں لگتا۔

تو پھر آپ کیوں کر رہے ہیں؟ دوسرا سوال حاضر تھا۔

'امی نے کہا ہے'۔

اچھا! اگر نہیں کروگے تو کیا ہوگا؟

امی ماریں گیں۔

اب کیمرہ پینتیس، چالیس سال کی ایک شکستہ دل ماں کا احاطہ کئے ہوئے تھا جو خود بھی بچوں کے ساتھ اُس کام میں مصروف تھی۔ خاتون اینکر اب بچوں کی دادی کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ 70 سالہ عمر رسیدہ مجبور خاتون سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ کو اِن معصوموں سے یہ کام کرواتے ہوئے تکلیف نہیں ہوتی؟

بہت تکلیف ہوتی ہے مگر اپنے حالات بھی دیکھنے پڑتے ہیں، میرے بیٹے کا حادثے میں ایک ہاتھ ٹوٹ گیا ہے وہ کام نہیں کرسکتا۔ یہ اُس کے بیوی بچے ہیں، دوسرا بیٹا گونگا ہے، وہ کما نہیں سکتا۔ شوہر کا انتقال ہوچکا ہے، پانچ بیٹیاں ہیں جن کی شادی ہوچکی ہے، ایک آتی ہے ایک جاتی ہے، سو مسئلے ہوتے ہیں، میں غریب ہوں میرے پاس کچھ اور کرنے کے وسائل نہیں ہیں سو ہم سب گھر بیٹھے مزدوری کرتے ہیں تب چولہا جلتا ہے۔

آپ کو کیا معاوضہ ملتا ہے؟

ہم ایک درجن چوڑیوں کے سیٹ تیار کرتے ہیں تو ہمیں 50 روپے ملتے ہیں۔

اُس کے لئے کتنی دیر کام کرنا ہوتا ہے؟

ہم صبح سے شام تک کام کرتے ہیں۔

تو آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اتنی محنت کے بعد اِن بچوں کو کیا مل رہا ہے؟ اب کیمرہ پھر دادی پر فوکس تھا۔

بیٹا، اِن سب باتوں پر اُس وقت سوچا جاتا ہے جب پیٹ میں روٹی ہو۔

اور اِن الفاظ پر ہی کیمرہ کٹ ہوا اور پروگرام میں بریک آگیا۔ اب سامنے اشتہار چل رہا تھا ایک پراڈکٹ کے اس مصالحہ کا جسے چکن پر لگا کر تلیں تو ہر گھر ریستوران بن جائے گا۔ ہنستی مسکراتی ماں سجے سجائے کچن میں جا کر منٹوں میں چکن لیگ پیس فرائی کر لاتی ہے اور دو ہنستے مسکراتے دس، بارہ سال کے بچوں کے سامنے سجی سجائی پلیٹیں رکھ دیتی ہے۔ یہ اشتہار ختم ہوا تو ایک دوسرا اشتہار کسی برانڈ کے تیل کا تھا، جس میں پکا ہوا ہر کھانا ممتا کے پیار کی نشانی بتایا جارہا تھا اور اُس نشانی کے اظہار کے لئے انواع و اقسام کے کھانوں سے سجی بڑی سی میز بار بار دکھائی جارہی تھی۔ اب باری تھی، تیسرے اشتہار کی جہاں کہنے والے کا مطالبہ تھا کہ کچھ میٹھا ہوجائے اور بچے، بوڑھے، جوان سب گا گا کر چاکلیٹ کھا رہے تھے اور کھا کھا کر ناچ رہے تھے۔

اگرچہ یہ اشتہارات ہمارے لئے ایک معمول کی بات ہیں لیکن تمام ماہرین یہ بات کہتے ہیں کہ اشتہار میں چُھپے پیغام کو سب سے پہلے اور سب سے گہرائی میں بچے سمجھتے بھی ہیں، اور اُن کی نفسیات پر یہ پیغامات اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ آپ ذرا اُن آٹھ، دس، بارہ سالہ بچوں کے ذہنوں پر اِن اشتہارات سے پڑنے والے اثرات کا تصور کریں۔ وہ بچے جو حالات کے جبر کے تحت ایک ناپسندیدہ کام روز صبح سے شام تک کرنے پر مجبور ہیں، جس کے بعد انہیں دال روٹی میسر آتی ہے، جب اپنے ہم عمر بچوں کو ہنستا مسکراتا، اچھے سے اچھی چیز کھاتے پیتے دیکھتے ہوں گے تو اُن کے ذہن کیا سوچتے ہوں گے۔

ایک طرف وہ ماں ہے جو اپنی ممتا کی نشانی کے طور پر آٹھ دس کھانے بنا کر میز پر سجا دیتی ہے اور بہت اصرار سے بچوں کے منہ میں نوالے ڈالتی ہے اور دوسری طرف اُن بچوں کی ماں ہے جو ڈانٹ مار کر انہیں مزدوری پر مجبور کرتی ہے۔ ایک طرف بچے بوڑھے مل کر چاکلیٹس کھارہے ہیں اور دوسری طرف اُن کے گھر میں کوئی بیمار ہوجائے تو اُس کے لئے دوا کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ کیا اِس طرح کے تمام اشتہارات ایسے بچوں کے احساس محرومی کو دو چند نہیں کرتے ہوں گے؟ انسان کو محرومی اتنی تباہ نہیں کرتی جتنا احساسِ محرومی انسان کو تباہ کردیتا ہے۔ پیارے نبی کریم ﷺ کی اِس ہدایت میں ہمارے لئے کتنی نصیحت پوشیدہ ہے کہ اگر پھل کھاؤ اور اپنے پڑوسی کو اُس کا حصہ نہ بھیج سکو تو اُس کے چھلکے باہر نہ پھینکو، لیکن اِس طرح کے اشتہارات کے ذریعہ ہم اِس ملک کے تمام محروم طبقے میں احساسِ محرومی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

اِن اشتہارات کو دیکھ کر اُن نو عمر بچوں کے ذہن جو پیغام قبول کریں گے وہ ممکنہ طور پر یہی ہوسکتے ہیں، پیسہ ہو تو یہ سب مزے ہوتے ہیں، پھر جب مستقل اُن کی اشتہاء بڑھتی جائے گی تو اگلا تقاضا یہ ہوگا کہ ہمیں بھی پیسہ حاصل کرنا ہے تاکہ یہ مزے حاصل کرسکیں۔ جب ایک دفعہ اُن کے ذہن میں یہ خیال آجائے گا تو وہ گھرسے باہر موجود بھیڑیوں کا آسان نشانہ بن جائیں گے۔ یا تو وہ اُن مجرموں کے ہاتھ لگ جائیں گے جو چھوٹے بچوں پر کام کرکے اپنی عددی قوت میں اضافہ کے لئے کوشاں رہتے ہیں یا منشیات فروشوں کا گروہ جو احساس محرومی کو نشے میں گم کرنے پر اُکسا رہا ہوتا ہے۔ چائلڈ لیبر ہمارے معاشرہ کے لئے اِس قدر تباہ کن عنصر نہیں ہے، جتنا ہمارے بچوں کا اِن جرائم پیشہ یا منشیات فروشوں کا حصہ بن جانا، لیکن ہمارے معاشرے میں جائلڈ لیبر کی مذمت اور اِس کی روک تھام کے لیے بات تو کی جاتی ہے، لیکن اِس طرح کے اشتہارات کو روکنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے معاشرے میں احساس محرومی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔

کیا اشتہار بنانے والی کمپنیاں بھی اِس امر پر غور کریں گی کہ ایک صحت مند معاشرہ کا قیام اُن کی بھی ذمہ داری ہے اور اگر اشتہار بناتے وقت وہ اپنے پورے معاشرہ پر اُس کے اثر انداز ہونے والے پیغام کو ایک صحت مند پیغام بنا کر نشر کرسکیں تو یہ اُن کی بہت بڑی قومی خدمت ہوگی۔ گلیمر سے ہٹ کر اشتہارات میں وہ ماحول دکھایا جائے اور وہ پیغام نشر کیا جائے جو ہمارے ماحول اور افراد سے مطابقت رکھتا ہو۔ ایسا اسراف اور ایسی ثقافت نہ دکھائی جائے جو ایک نمایاں تضاد کو ظاہر کرتی ہو، ورنہ سرمایہ دار محنت کرکے کمائیں گے اور ڈاکو اور بھتہ خور لوٹ کر لے جائیں گے۔

جب معاشرہ کا موثر طبقہ معاشرے کی اکثریت کو ذمہ دار بنانے کا عمل جاری نہیں رکھے گا تو یہ غیر ذمہ دار گروہ خود اُس کے نقصان کا بھی باعث بنے گا۔ بہتر ہوگا کہ اشتہار سازی کے معاشرے پر اثرات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور اِس موثر صنعت کو معاشرے کی تعمیر کا ذریعہ بنایا جائے۔

[poll id="1326"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں