عالمی یومِ صارفین2017ء

جعلی ادویات اور وہ فیکٹریاں جو عوام کے جان و مال سے کھیلتی ہیں آپ اُن کے خلاف بھی صارف عدالت جاسکتے ہیں۔


پاکستان میں صارفین کے تحفظ کے لئے وفاقی سطح پرقانون سازی کی گئی ہے اور اسی طرح صوبائی حکومتیں بھی اپنی اپنی جگہ صارف عدالتوں کے قیام کے لئے قانون سازی کررہی ہیں۔فوٹو: فائل

ہر سال 15 مارچ کو عالمی سطح پر صارفین کے تحفظ کے حوالے سے دن World Consumer Rights Day (WCRD) منایا جاتا ہے۔ اِس دن کو منانے کا بنیادی مقصد ہے کہ،

  • صارفین کو اُن کے حقوق کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔

  • صارفین کے حقوق کے لئے قوانین مرتب کئے جائیں، اور سماجی سطح پر ادارے بنائے جائیں جو صارفین کے لئے کام کریں۔

  • دنیا بھر میں معاشرتی طور پر صارفین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو محسوس کیا جائے اور اِس کے ازالے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔



عالمی یومِ صارفین کی تاریخ


ورلڈ کنزیومر رائٹس ڈے، امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی امریکی کانگریس میں 15 مارچ 1962ء کو صارفین کے تحفظ کے لئے کی گئی ایک تقریر سے متاثر ہو کر منایا جاتا ہے۔ صارفین کے مسائل اور اُن کے تحفط کے لئے کسی بھی عالمی رہنما کی یہ پہلی تقریر تھی جس کو بنیاد بنا کر کنزیومر موومنٹ اب ہر سال اِسی دن عالمی سطح پر صارفین کی آگاہی اور تحفظ کے لئے مہم چلاتی ہے۔ 15 مارچ 1983ء کو پہلی بار 'عالمی یومِ صارفین' منایا گیا۔ اِس وقت سے اب تک دنیا بھر میں صارفین کے حقوق کے لئے اِس دن کو خاص اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔


عالمی یومِ صارفین 2017


اِس سال عالمی یومِ صارفین کا مرکزی کا خیال ایک ایسی ڈیجیٹل دنیا کا قیام ہے جس پر صارف بھروسہ کرسکیں۔

''Building a Digital World Consumers can Trust''

عالمی سطح پر اِس سلسلے میں کام ہورہا ہے کہ ایک ایسی آن لائن مارکیٹ تشکیل دی جائے، جس میں صارفین کے حقوق کا خیال رکھا جائے، جیسے ای بے، ایمازون، علی بابا اور پاکستان میں دراز ڈاٹ کام جیسی آن لائن مارکیٹس موجود ہیں جو صارفین کو اشیاء پرکھنے، قیمتوں کا تعین کرنے اور اشیاء تبدیل کرنے کے علاوہ وارنٹی کی سہولیات مہیا کرتی ہیں۔ اب آپ گھر بیٹھے آن لائن دنیا بھر سے اپنی پسندیدہ پراڈکٹس خرید سکتے ہیں۔ جس میں صارفین کو یہ سہولیات میسر ہیں کہ انہیں بین الاقوامی معیار کا اعتماد حاصل ہے، ناپ تول اور اشیاء کی پائیداری کا یقین اور قیمتوں کا اطمینان ہے۔


صارفین کے حقوق کیا ہیں؟


دنیا میں اِس وقت صارفین غیر معیاری اشیاء، غیر تسلی بخش سروسز (سہولیات) اور مینوفیکچرنگ، ایکسپائری تاریخ کے اندراج کے حوالے سے مسائل پر اپنے خدشات اور نقصانات کو صارف عدالتوں کے ذریعے حل کررہے ہیں۔ پاکستان کے صارفین بھی اپنے حقوق کے لئے آواز اُٹھا سکتے ہیں اور اگر مندرجہ ذیل زمرہ جات میں اُن کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے تو وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔



  • غیر معیاری اشیاء


بہت سی کمپنیاں اشتہارات میں اپنی مصنوعات کی تشہیر بہت بڑھا چڑھا کر کرتی ہیں مگر درحقیقت وہ اشیاء اُس معیار کی نہیں ہوتیں۔ ایک صارف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیرمعیاری اشیاء کے خلاف آواز بلند کرسکتا ہے۔ مثلاََ حال ہی میں پاکستان کی عدالتوں نے ''ٹی وائٹنر'' بنانے والی چند معروف کمپنیوں کو اِس بات سے روک دیا ہے کہ وہ اپنی تشہیر میں عوام کو ''ٹی وائٹنر'' کے دودھ ہونے کا تاثر نہ دیں جبکہ ''ٹی وائٹنر'' کسی طرح بھی دودھ کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح بچوں کی کاسمیٹکس کی ایک بڑی کمپنی جس کی پراڈکٹس (بے بی شیمپو، لوشنز اور ٹیلکم پاؤڈر وغیرہ) مارکیٹ میں دستیاب تھیں معلوم ہوا کہ سب جعلی ہیں اور اِس کمپنی کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔

جعلی ادویات اور وہ فیکٹریاں جو عوام کے جان و مال سے کھیلتی ہیں آپ ان کے خلاف بھی صارف عدالت جاسکتے ہیں۔ غیر معیاری اشیاء میں وہ اشیاء بھی شامل ہیں جو ہمیں پیکنگ کے بغیر ملتی ہیں اور ملاوٹ شدہ ہوتی ہیں مثلاََ ڈیری پراڈکٹس (دودھ، دہی، مکھن، گھی وغیرہ) مصالحہ جات۔ ایسی سبزیاں اور پھل جو گندے نالوں پر اُگائے جاتے ہوں اور مضرِ صحت ہوں۔ غیر معیاری اشیاء کی طویل فہرست ہے، غرض وہ تمام اشیاء جو ایک صارف مارکیٹ سے خریدتا ہے اور وہ مطلوبہ معیار پر پوری نہیں اُترتیں، لہذا صارف اپنے حق کے لئے صارف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔

  • غیر تسلی بخش سروسز (خدمات)


غیر تسلی بخش سروسز (سہولیات) میں ایسی تمام کمپنیاں، ادارے اور فرمز شامل ہیں جو صارفین کو اپنی خدمات مہیا کرتے ہیں۔ اگر صارف اِن خدمات سے مطمئن نہیں یا تشہیری مہم میں جو معلومات دی گئیں وہ درحقیقت درست نہیں تو صارف کو یہ حق ہے کہ وہ 'صارف عدالتوں' کے ذریعہ انصاف حاصل کرے۔ پاکستان میں مختلف ادارے صارفین کو اپنی خدمات مہیا کرتے ہیں۔ جیسے ٹیلی کام سیکٹر میں پی ٹی سی ایل، پی ٹی اے، موبائل کمپنیاں اور انٹرنیٹ سروسز پروائیڈر کمپنیاں شامل ہیں۔ کیبل نیٹ ورک پروائیڈرز، نادرا، سوئی نادرن گیس پائپ لائن اور الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کے علاوہ وہ تمام ادارے جو خدمات مہیا کرتے ہیں اسی فہرست میں آتے ہیں۔

اگر اِن خدمات اور تشہیر میں فرق ہے اور زیادتی ہو رہی ہے جیسے موبائل کمپنیوں کا آٹومیٹک آفرز ایکٹیویٹ کردینا، زائد بِلنگ، غیر ضروری چارجز وغیرہ تو صارف کنزیومر کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔

  • مینوفیکچرنگ، ایکسپائری تاریخ کا اندراج


پاکستان میں ادویات، ڈبہ بند غذائی اشیاء (دودھ سے بنی اشیاء، دالیں، گوشت اور مرغی سے تیار کردہ اشیاء، بیکری کی اشیاء وغیرہ)، کاسمیٹکس پراڈکٹس اور اسی نوعیت کی دوسری تمام اشیاء پر مینوفیکچرنگ، ایکسپائری تاریخ اور قیمت کا اندراج ہونا لازم ہے، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بہت سارے اسٹورز پر ایکسپائری تاریخ گزرنے کے بعد بھی یہ اشیاء موجود رہتی ہیں اور عام صارف لاعلمی میں وہ اشیاء نہ صرف خرید لیتا ہے بلکہ اِس کے استعمال سے اپنی صحت کا نقصان بھی گنواتا ہے۔ ایک صارف کا حق ہے کہ وہ ایسی کسی بھی شکایت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرسکے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے اور صارفین کے تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر مختلف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جب کہ این جی اوز اور مختلف پرائیویٹ ادارے صارفین کے مسائل اجاگر کرتے ہیں اور اُن کی آگاہی کے لئے مہم چلاتے ہیں۔ اخبارات اِس دن کی مناسبت سے خصوصی مضامین شائع کرتے ہیں، لیکن کیا پاکستان میں صارفین کے تحفظ کے لئے کئے گئے اقدامات تسلی بخش ہیں؟ اور ایک عام صارف حکومتی اقدامات سے مطمئن ہیں کہ نہیں؟ اِن سوالات کے جواب ابھی تک تشنہ طلب ہیں۔

خیبر پختون خواہ اور سندھ میں جلد صارف عدالتوں کا قیام عمل میں آجائے گا جبکہ حکومت پنجاب نے اِس سلسلے میں کافی حد تک پیش رفت کی ہے۔ صارفین کے تحفظ کے لئے حکومتِ پنجاب نے 2007ء میں پنجاب کے 11 اضلاع میں ضلعی صارف عدالتیں (District Consumer Court) قائم کیں، جو صارف کو فوری اور مفت انصاف مہیاء کرتی ہیں۔ پاکستان میں اِس وقت صارفین کے تحفظ کے لئے مندرجہ ذیل ادارے، این جی اوز مصروفِ عمل ہیں۔

  • کنزیومر رائٹس کمیشن آف پاکستان، Consumer Rights Commission of Pakistan(CRCP)

  • کنزیومر رائٹس کونسل، Consumer Rights Council (CRC)

  • پنجاب کنزیومر پروٹیکشن کونسل، Punjab Consumer Rights Council

  • دی نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن، The Network for Consumer Protection

  • کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان، Consumer Association of Pakistan



صوبہ پنجاب میں قائم کی گئی صارف عدالتوں کا مختصر تعارف اور طریقہ کار



  • اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیے

  • صارف کے تحفظ کے لئے ''صارف عدالت'' کا در کھٹکھٹائیے

  • کنزیومر کورٹ (صارف عدالت)


پاکستان میں صارفین(کسٹمرز) کو اپنے حقوق سے متعلق کوئی آگاہی نہیں، صارف کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اُس کو قانونی طور پر یہ تحفظ حاصل ہے کہ وہ غیر معیاری اشیاء، غیر تسلی بخش سروسز (سہولیات) اور مینوفیکچرنگ، ایکسپائری تاریخ کے اندراج نہ ہونے پر، قیمت کی فہرست آویزاں نہ کرنے پر قانونی چارہ جوئی کرسکتا ہے۔ صارفین کے تحفظ کے لئے حکومتِ پنجاب نے 2007ء میں پنجاب کے 11 اضلاع میں ضلعی صارف عدالتیں (District Consumer Court) قائم کیں، جو صارف کو فوری اور مفت انصاف مہیاء کرتی ہیں۔ دیگر اضلاع کے صارفین قریبی اضلاع میں اپنا کیس فائل کرسکتے ہیں۔

اگر آپ کمپنی، خدمات مہیا کرنے والے ادارے، ہول سیلر، ریٹیلر اور دکاندار سے مطمئن نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو چیز آپ نے خریدی، جو سہولت آپ کو دی جارہی ہے وہ مطلوبہ معیار کی نہیں یا اشتہارات میں کمپنی نے جو تفصیلات دیں وہ مصنوعات اِس پر پوری نہیں اُترتیں تو آپ 'صارف عدالت' یا 'ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر' کو درخواست دے سکتے ہیں۔

اگر آپ کے ساتھ مندرجہ ذیل میں سے کوئی بھی مسلئہ درپیش ہے تو آپ 'صارف عدالت' جاسکتے ہیں۔

  • ریٹ لسٹ آویزاں نہ کی گئی ہو

  • مصنوعات غیر معیاری، زائد المیعاد اور جعلی ہوں

  • اشیاء کی پیکنگ پر اجزائے ترکیبی، معیاد اور تاریخ درج نہ ہو

  • خریداری سے پہلے مصنوعات اور ادا شدہ رقم کی واپسی کی عدم فراہمی

  • خریدار کو مصنوعات کی وارنٹی، ساخت، نمونہ اور مناسب وارننگ نہ دی گئی ہو

  • غلط و گمراہ کن اشتہار بازی کے ذریعے مصنوعات کی فروخت و خدمات کی فراہمی

  • کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی جانب سے خدمات کی بدولت پریشانی کا سامنا ہو

  • خریداری پر رسید نہ دی گئی ہو یا رسید پر تاریخ، اشیاء کی تفصیل، قیمت ، مقدار اور دوکاندار کا نام پتہ درج نہ ہو



''ضلعی صارف عدالت'' میں کیس دائر کرنے کا طریقہِ کار


اگر آپ کو مندرجہ بالا میں سے کوئی بھی شکایت ہے یا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا تو آپ انصاف کے لئے 'صارف عدالت' کا رُخ کرسکتے ہیں۔ کیس دائر کرنے کا طریقہ کار مندرج ذیل ہے۔ یاد رہے 'صارف عدالت' میں کیس کرنے کی کوئی فیس نہیں ہے اور نہ ہی آپ کو وکیل کی خدمات لینے کی ضرورت ہے۔

  • آپ سادہ کاغذ پر 15 دن کا لیگل نوٹس لکھیں اور کاروباری کمپنی، فرم، سروسز پرووائیڈر یا دکاندارکو بھیج دیں۔

  • لیگل نوٹس رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھجوائیں تاکہ آپ کے پاس نوٹس بھجوانے کا ثبوت ہو۔

  • اگر کاروباری کمپنی، فرم، سروسز پرووائیڈر یا دکاندار آپ کے نوٹس کے جواب میں ازالہ کردے تو کیس فائل کرنے کی ضرورت نہیں، بصورت دیگر آپ 'صارف عدالت' سے رجوع کریں۔

  • آپ 'صارف عدالت' میں درخواست (سادہ کاغذ پر لکھ کر) کے ساتھ لیگل نوٹس کی کاپی، شناختی کارڈ کی کاپی، رسید کی کاپی (اگر ہے تو) اور دیگر دستاویزات بطور ثبوت منسلک کر کے کیس دائر کردیں۔

  • لیگل نوٹس اور صارف عدالت میں کیس فائل کرنے کے لئے آپ کو کوئی فیس دینے یا وکیل ہائر کرنے کی قطعاََ ضرورت نہیں۔

  • عدالت جرم ثابت ہونے پر متعلقہ کاروباری کمپنی، فرم، سروسز پرووائیڈر یا دکاندارکو دو سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنا سکتی ہے۔ عدالت دونوں سزائیں ایک ساتھ بھی دے سکتی ہے۔



ڈی سی او، کو درخواست دینے کا طریقہِ کار


صارفین غیر معیاری خدمات و مصنوعات، ریٹ لسٹ کے آویزاں نہ کرنے، مصنوعات پر اجزائے ترکیبی، میعاد و تاریخ کا نہ ہونا اور رسید نہ دینے یا ضروری معلومات رسید پر نہ ہونے کے خلاف ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر (ڈی سی او) کو بھی درخواست دے سکتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر کے اختیارات 'ضلعی صارف عدالت' سے کم ہوتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر جرم ثابت ہونے پر متعلقہ کاروباری کمپنی، فرم، سروسز پرووائیڈر یا دکاندارکو صرف 50 ہزار تک جرمانہ کرسکتا ہے۔

پاکستان کے روایتی نظام میں 'ضلعی صارف عدالتوں' کا قیام اہم پیش رفت ہے، جو کہ خوش آئند ہے۔ عموماً لوگوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے مسائل کا کوئی حل نہیں اور اُن کی شکایت کہیں نہیں سنی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ناقص اشیاء اور زائد المعیاد چیزیں سرِ عام فروخت ہوتی ہیں، جبکہ غیر معیاری سہولیات پر چارہ جوئی کا صارفین میں تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ جہاں حکومت نے 'ضلعی صارف عدالتوں' کو قائم کرکے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے، وہیں اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم عوام الناس کو یہ آگاہی فراہم کریں کہ اُن کے حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہے وہ چاہیں تو کمپنیوں پر ہرجانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں، چاہیں تو نا انصافی پر 'ضلعی صارف عدالت' کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔

[poll id="1346"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں