میرا وطن چمکے گا

فرح ناز  ہفتہ 22 اپريل 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

ایک اور اندوہناک حادثہ، ایک اور ظلم کی کہانی، مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک طالب علم مثال خان کا قتل ۔ انتہا پسندی تیزی کے ساتھ ہمارے تعلیمی نظام تک پہنچ رہی ہے۔ مدرسے، اسکول، کالج، یونیورسٹیز، کچھ بھی ایسا نہیں جو اس سے متاثر نہ ہو رہے ہوں۔ بہت ہی الارمنگ اور بہت ہی سوچنے والی بات یہ ہے کہ پورا پاکستان اور خاص کر تعلیمی ادارے کیونکر اس انتہا پسندی کی لپیٹ میں آٓرہے ہیں۔ ہمارا طالب علم کس احساس محرومی کا شکار ہو رہا ہے جو وہ اس طرف اپنے قدم بڑھا رہا ہے۔

یا وہ کون سے عناصر ہیں جو ہمارے تعلیمی اداروں کو اپنے مذموم ارادوں کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شاندار عالیشان ہستیاں تو اللہ پاک نے ہمیں ہدایت اور ہماری زندگیوں کو صحیح راستے پر لانے کے لیے ہمیں عطا فرمائیں۔ میرے رسول نے تو اپنی جان کے دشمنوں کو بھی معاف کیا اور ان کی اصلاح فرمائی، تو پھر میں اور آپ کون ہوتے ہیں جو اللہ اور رسول کے راستے پر نہ چلیں یہی راستہ، یہی صبر، یہی ہدایت تو ہمیں اللہ اور رسول سے قریب کرتی ہے۔

ضیا الحق کے دور میں کالجز اور یونیورسٹیز میں جو طلبا یونین پر پابندی عائد کی گئی جو جذبات اور اظہار رائے پر پابندی لگائی گئی تو یقینا اس کے خطرناک نتائج گاہے بہ گاہے نظر آنے لگے ۔ نوجوان نسل اور ان کی سوچ اور ان کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ہم اور آپ ان پر پابندیاں لگا کر ان کو گھٹن کا شکار نہیں کرسکتے۔

ان کو حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی سوچ کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرسکیں اور پھر یہ ریاست کا حق ہے کہ وہ ان تمام کالجز اور یونیورسٹیز کے ماحول پر سخت نظر رکھیں اور گاہے بہ گاہے تمام طالب علموں کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ بھی جاری رکھیں، ہمارا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنا، انٹرایکشن کرنا بے حد ضروری ہے، یہ دوریاں ہی ہمیں آگ کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ دلوں اور زمینوں کی گھٹن نے ہمارے اندر بھی دھواں بھر دیا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، مختلف فرقے، مختلف مسائل، یقین جانیں محبت کا مرکز تو صرف اللہ اور اس کا رسول ہی ہے۔ تو پھر ہم میں اتنی تفریق کیوں؟ منزل تو ایک ہی ہے، پھر سفر علیحدہ علیحدہ کیوں؟

ایک جوان جہاں بیٹا، ظلم و ستم کی نذر ہوجائے، وہ ادارے جن میں والدین کے خواب پورے ہوتے ہیں انھی اداروں میں وہ بے بسی کے تصویر بنے اپنی جوان اولاد کا جنازہ رلتے ہوئے دیکھیں۔ آرمی پبلک اسکول میں معصوم پھول جیسے بچوں کو جس سفاکانہ کارروائی کا حصہ بنایا گیا، ایسی کارروائیاں اب بھی جاری ہیں، ہم مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا بے دردی سے استعمال کیا گیا، رسول پاکؐ کی عزت و حرمت پر ہماری جانیں قربان، ہمارا سب کچھ قربان… لیکن کیا یہ مناسب ہے کہ ہم اپنی ناجائز خواہشات کے حصول کے لیے مذہب کے نام پر دہشت گردی کریں، ظلم کریں، قتل کریں۔ زندگی اور موت کا مالک تو صرف اللہ پاک ہے۔ وہی رب کائنات ہے اسی کی دنیا اور اسی کی آخرت ہے، اس نے نبیوں کو انسانوں کی رہنمائی کے لیے اتارا، اسی نے ظالم قوموں کو عبرت بنایا۔ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

پھر میں اور آپ کی حیثیت کیا؟ حکومت موجود، ادارے موجود، قانون موجود، مگر سب کے سب سیاست کی نذر ہوتے جا رہے ہیں۔ جس شخص کے پاس بھی کرسی آجاتی ہے وہ فرعون بن جاتا ہے۔ وہ مافیا کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جوتیاں چاٹنے والے اور چھوٹے چھوٹے مفادات حاصل کرنے والے اس کے اردگرد ایسے جمع ہوجاتے ہیں جیسے شہد کے گرد مکھیاں، اور یہی مکھیاں اس کا ستیا ناس کرکے رکھ دیتی ہیں، ہر سال کئی اداروں جو مفید ہوں ان کو بدلا جائے، پورے سال کا حساب کتاب لیا جائے، تاکہ کسی کو مافیا بننے کا چانس ہی نہ ملے۔

حکومت اور حکومتی اداروں کو اب اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ پاناما کا فیصلہ آ گیا ہے۔ عمران خان پر سلام کہ وہ مسلسل تسلسل کے ساتھ ایک فائٹر کی طرح لڑے جا رہے ہیں اور قانون کی حد اور اس کے تقاضوں کو بھی پورا کر رہے ہیں بے شک اللہ پاک کسی کی محنتوں کو رائیگاں نہیں کرتا اور بے شک دلوں کے حال اللہ پاک ہی جانتا ہے۔

عمران خان مضبوط اپوزیشن کا کردار بے انتہا خوبی سے انجام دے رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کو بھی کئی مرتبہ ٹریپ کرنے کی کوشش کی گئی اور کئی مرتبہ وہ بہت کچھ کرسکنے کی پوزیشن میں تھے لیکن نہ کرسکے، اور اسی لیے ایک تاثر یہ بھی ابھرا ہے کہ عمران خان کو ابھی تک پاکستانی سیاست کی سمجھ نہیں آئی اور کچھ تو ان کو سیاست دان ماننے کے حق میں ہی نہیں، 2013 کا الیکشن پی ٹی آئی کا بھاری مینڈیٹ، پر فتح کا حقدار نہ بن سکے۔اس کے باوجود اپوزیشن مسلسل کرتے رہے، اور اب پاناما کا فیصلہ، عمران خان کو مکمل اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن ایک کامیاب سیاستدان اور کامیاب وکیل، پہلے ہی دن سے فرما رہے ہیں کہ اس کیس میں عمران خان کے لیے فتح ہی فتح ہے۔ 20 اپریل کا پانامہ کا فیصلہ آگے جاکر بہت ساری سمتوں کا تعین بھی کردے گا۔

جو چپ رہے گی زبان خنجر

لہو پکارے گا آستیں کا

کلبھوشن کی سزائے موت کا فیصلہ، اور عزیر بلوچ کو آرمی نے اپنی حراست میں لے لیا ہے یہ بھی بہت اہم فیصلے ہیں۔ عزیر بلوچ سے حاصل کردہ معلومات بہت سارے نقاب چہروں سے اتارے گی۔ دھیمے اور تسلی کے ساتھ پاک فوج آپریشن ردالفساد انجام تک پہنچا رہی ہے۔ گہری نظروں کے ساتھ یقیناً بہترین دماغ کام کر رہے ہیں یہ پوری قوم کے لیے باعث اطمینان ہے۔

حکومتوں کا کام روپیہ لوٹنا، سمیٹنا نہیں، عوام کو گدھا نہ سمجھا جائے۔ عوام پر بوجھ در بوجھ نہ ڈالا جائے، اور اب امید نظر آتی ہے کہ شاید کچھ بدلے گا کچھ اچھا ہوگا، حکومتوں کا کام تو اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔ میڈیکل طالبہ نورین لغاری جیسی بچیوں کو تحفظات فراہم کرنا ہے۔ دو ماہ تک دہشت گردی کی تربیت لینے والی طالبہ لاہور سے پکڑی جاتی ہے۔ نورین لغاری کو کتابوں سے نکال کر کس نے بارود کی طرف دھکیلا؟ کیا ہماری قوم کی بچیاں، عافیہ صدیقی کی شکل میں یا نورین لغاری کی شکل میں نظر آئیں گی، کیا واقعی میری مسلح افواج اور اس کے جوان لوہے کی دیوار بنے رہیں گے، وقت بدلے گا، انصاف آئے گا، ضرور میرا وطن چمکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔