سیاسی کارکن یا سیاسی ہاری
نظریاتی جماعتوں کی ایک بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ ان جماعتوں میں ڈسپلن کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے
سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کی عوام میں مقبولیت کا ایک اہم وسیلہ سیاسی کارکن ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جب تک بائیں بازو کی نظریاتی سیاست کا بول بالا تھا، سیاسی کارکن عوام سے رابطے کا اہم ذریعہ بنے ہوئے تھے۔ سیاسی کارکن عوام سے رابطہ کر کے ان تک پارٹی کا منشور پہنچاتے تھے۔
نظریاتی سیاسی کارکن محض پارٹی کی قیادت کا پیروکار نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کی اصل وفاداری پارٹی کے منشور سے ہوتی تھی، یہی وجہ تھی کہ بائیں بازو کی سیاست میں عوام بھی قیادت سے زیادہ پارٹی منشور سے متاثر ہوتے تھے۔ اس طرز سیاست میں سیاسی کارکن پارٹیوں کا سیاسی ہاری نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ ایک ذمے دار آزاد خیال کارکن ہوتا تھا۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی کامیابی میں پارٹی ڈسپلن کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
نظریاتی جماعتوں کی ایک بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ ان جماعتوں میں ڈسپلن کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ سیاسی کارکنوں میں ڈسپلن پیدا کرنے کے لیے پابندی کے ساتھ ان کی تربیتی نشستیں ہوا کرتی تھیں، اس کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں میں نظریاتی پختگی پیدا کرنے کے لیے منظم طور پر اسٹڈی سرکل چلائے جاتے تھے۔ اس طریقہ کار کی وجہ سے سیاسی کارکنوں میں نظم و ضبط کے علاوہ نظریاتی استحکام بھی پیدا ہوتا تھا۔ نظریاتی جماعتوں میں ہر ایرے غیرے کو پارٹی ممبر نہیں بنایا جاتا تھا بلکہ پارٹی ممبر شپ حاصل کرنے کے لیے کڑے مرحلوں سے گزرنا پڑتا تھا۔
مجھے یاد ہے غالباً یہ 1967ء کی بات ہے، لاہور میں پارٹی میٹنگ ہو رہی تھی، سید قسور گردیزی ایک سینئر کارکن ہونے کے باوجود پارٹی ممبر نہیں بن سکے تھے، اس لیے انھیں میٹنگ میں شریک نہیں کیا گیا تھا، جس کا انھوں نے برا نہیں منایا تھا۔ قسور گردیزی کا شمار ملتان کے جاگیردار خاندانوں میں ہوتا تھا لیکن مرحوم نے پارٹی کی رکنیت حاصل کرنے اور اپنے آپ کو ممبر شپ کا اہل ثابت کرنے کے لیے ڈی کلاس کر لیا تھا۔ اس زمانے میں ماؤ کی ریڈ بکس کارکنوں میں بہت مقبول تھی۔ قسور گردیزی ایک جاگیردار ہونے کے باوجود نظریاتی لٹریچر لے جانے کے لیے ملتان سے کراچی آتے تھے، جہاں وہ مزدوروں کی میٹنگوں میں شریک ہوتے تھے۔
بائیں بازو میں نظریاتی انتشار چین اور روس کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہوا اور بایاں بازو باضابطہ طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ آج بھی جو جماعتیں منظم اور نظریاتی حوالوں سے کام کر رہی ہیں وہ اپنی پارٹیوں اور کارکنوں کے درمیان ڈسپلن کا ایک سخت نظام رکھتی ہیں۔ کارکنوں کو قیادت اور پارٹی پالیسیوں پر سخت تنقید کا حق تو ہوتا ہے لیکن ڈسپلن توڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ڈسپلن کے پارٹی کو حاصل ہونے والے فوائد کا اندازہ کرنا ہو تو فوج کے ڈسپلن پر ایک نظر ڈال لیں۔
بورژوا سیاست کے استحکام کے نتیجے میں نہ اب پارٹیوں میں کارکنوں کے ڈسپلن کی کوئی پرواہ کی جاتی ہے، نہ نظریاتی تربیت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ہر بورژوا پارٹی میں کارکنوں کا ایک بے ہنگم ہجوم ہوتا ہے جس کی کوئی نظریاتی تربیت نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ آج کے سیاسی کارکن پارٹی منشور کے وفادار نہیں ہوتے، بلکہ ان کی وفاداری پارٹی کی فیوڈل ذہنیت کی قیادت سے ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس طرز فکر کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں موجود اور مستحکم جاگیردارانہ کلچر ہے۔ اس کلچر میں جاگیردار اور وڈیرے ظل سبحانی بنے رہتے ہیں، کسی عام بندہ بشر کو ان کے سامنے زبان کھولنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ابھی بھی زرعی معیشت پر حاوی وڈیروں کے دربار ماضی کے شاہوں اور شہنشاہوں جیسے ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی ہاری کو وڈیرے کے دربار میں حاضری کی اجازت ملتی ہے تو اسے ننگے پیر سر جھکا کر وڈیرے کی بارگاہ میں جانا پڑتا ہے اور واپسی میں پیٹھ وڈیرے کی طرف کیے بغیر لوٹنا پڑتا ہے۔ یہ بیماری ہے تو شاہوں کے دور کی لیکن پاکستان کی سیاست میں وڈیرہ کلچر کے فروغ سے یہ بیماری ہماری سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔
ہماری سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاست میں سیاسی کارکن سیاسی ہاری بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست وڈیرہ کلچر کے فروغ کے نتیجے میں اب سیاسی قیادت خاندانی ضرورت بن کر رہ گئی ہے، چند مخصوص سیاسی جماعتوں کے رہنما اب باضابطہ طور پر ولی عہدی نظام اپنا چکے ہیں، اس خاندانی سیاست کو اگرچہ جمہوریت کا چولا پہنا دیا گیا ہے لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہمارے ملک میں خاندانی سیاست اور خاندانی حکمرانی کے کلچر کو کس طرح مضبوط کیا جا رہا ہے۔ پارٹی منشور سے وفاداری کی جگہ اب پارٹی قیادت سے وفاداری عام ہوگئی ہے، جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاسی رہنماؤں کی جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ پارٹیوں کی قیادت کا حق چند خاندانوں کو حاصل ہو گیا ہے۔
کمال یہ ہے کہ اس حوالے سے کسی جمہوری طریقہ کار پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ پارٹی کی قیادت ان نونہالوں کے حوالے کی جاتی ہے جنھیں نہ سیاست کا کوئی تجربہ ہوتا ہے نہ عوامی خدمات کا کوئی ریکارڈ ہوتا ہے۔ مغربی درسگاہوں سے فارغ ہوتے ہی پاکستان آ کر یہ شہزادے پارٹی کی قیادت سنبھال لیتے ہیں اور اپنی ساری زندگی پارٹی میں گزارنے والے جن کے بال سفید، جن کی کمر خمیدہ ہو جاتی ہے پارٹی کے نوعمر رہنماؤں کے سامنے ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ ہماری لولی لنگڑی جمہوریت کا ایسا المیہ ہے جس کے خلاف زبان کھولنے یا قلم چلانے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی یا ذاتی مفادات اس کے آڑے آ جاتے ہیں۔
سیاسی کارکن جو کسی زمانے میں پارٹی منشور کے وفادار ہوتے تھے اب وڈیرہ شاہی قیادت کے ایسے وفادار بن گئے ہیں کہ اب یہ حضرات سیاسی کارکن کے بجائے سیاسی ہاری نظر آتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن عالی مرتبت رہنماؤں پر اربوں کی کرپشن کے الزامات میں عدالتی کارروائیاں ہو رہی ہیں، ہمارے سیاسی کارکن عدالتوں میں ان رہنماؤں کے حق میں زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں اور اربوں کی کرپشن کے داغ پیشانیوں پر سجانے والے سیاسی رہنما عدالتوں کی سیڑھیوں پر وکٹری کے نشان بنا رہے ہیں۔