- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ بارش کے باعث تاخیر کا شکار
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو برطرف دیا
’’ کسی پر کالاجادو نہیں کیا ‘‘
زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے کا شمار دورحاضر کے معمرترین حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر وہ اکثر و بیشتر عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنتے رہتے ہیں۔
ان کا شمار مغرب کے ناپسندیدہ حکمرانوں میں بھی ہوتا ہے۔ 93 سال کی عمر میں بھی اقتدار سے چمٹے رہنے اور مغربی طاقتوں کے منشا کے مطابق پالیسیاں نہ اپنانے کی وجہ سے وہ اکثر تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ زمبابوے میں سفید فام بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ تاہم حکومتی ایوانوں میں اکثریت سیاہ فاموں کی ہے۔ غالباً اسی لیے امریکا اور اس کے اتحادی موگابے اور ان کی حکومت کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں۔
زمبابوے میں آئندہ صدارتی انتخابات اگلے برس منعقد ہوں گے۔ 1980ء سے لے کر گذشتہ انتخابات تک موگابے کی سیاسی جماعت Zanu-PF ہی فتح حاصل کرتی رہی ہے۔ ہر بار انتخابات میں حکمران جماعت پر دھاندلی کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ مغربی طاقتوں کے علاوہ حزب مخالف کی جماعتیں بھی ملک میں موگابے کی حکمرانی کا خاتمہ چاہتی ہیں مگر پیرانہ سالی کے باوجود وہ مسند اقتدار پر اسی طرح براجمان ہیں۔ موگابے کی صحت کئی بار خراب ہوچکی ہے اور ان دنوں بھی وہ بیمار ہیں اس کے باوجود زمام اقتدار کسی اور کے حوالے کرنے کا خیال ان کے ذہن میں دور دور تک نہیں۔ نائب صدر ایمرسن ریم نانگوگواکو ان کا جانشین قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم خود رابرٹ موگابے نے اپنی کوئی جانشین نام زد نہیں کیا۔
ایمرسن موجودہ صدر کی جگہ لے پاتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیوں کہ وہ خود بھی 74 سال کے ہیں اور صحت بھی ڈانوڈول رہتی ہے۔ حال ہی میں ایمرسن کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ اور صحت بھی ڈانواڈول رہتی ہے۔ حال ہی میں ایمرسن کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ انھیں قے آنے لگی اور پھر اسہال شروع ہوگئے ۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد انھیں علاج کے لیے پڑوسی ملک جنوبی افریقا لے جایا گیا۔ ایمرسن کی طبیعت ایک ریلی کے دوران خراب ہوئی تھی جس سے زمبابوے کے صدر خطاب کررہے تھے۔
جنوبی افریقا میں ڈاکٹروں نے کہاکہ ایمرسن کو زہر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کا معدہ اور جگر جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔ موگابے کی پارٹی کے کچھ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ریلی کے دوران صدر کی جانب سے نائب صدر کو آئس کریم بھجوائی گئی تھی۔ زہر ممکنہ طور پر اسی میں تھا۔ کئی عہدے داروں کے یہ بیانات بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنے کہ مضبوط ترین متوقع جانشین سمجھے جانے کی وجہ سے صدر نے ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی۔
رابرٹ موگابے کے حریف سیاست دانوں نے اس حوالے سے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا کہ نائب صدر پر کالا جادو کیا گیا اور ایسا کرنے والے خود رابرٹ موگابے تھے۔ واضح رہے کہ دوسرے افریقی ممالک کی طرح زمبابوے میں بھی جادو ٹونا عام ہے۔ عوام اپنے مختلف کاموں کے سلسلے میں جادو گروں سے رابطہ کرتے ہیں جنھیں وہاں وچ ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔ اس دعوے کے جواب میں رابرٹ موگابے نے کہا ’’کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں جادوگر ہوں اور ایمرسن کو میں نے کالا جادو کرکے قتل کرنے کی کوشش کی۔ ذرا یہ تو بتائیں کہ پہلے میں نے کتنوں کو جادو کے زور سے مارا؟ میں کوئی وچ ڈاکٹر نہیں ہوں اور نہ ہی ایمرسن کی بیماری سے میرا کوئی تعلق ہے۔‘‘
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔