سعودی عرب سمیت 7 مسلم ممالک نے قطر سے تعلقات منقطع کردیے

ویب ڈیسک  پير 5 جون 2017

دوحہ:  سعودی عرب سمیت 7 مسلم ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، یمن، لیبیا اور مالدیپ نے قطر کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات منقطع کرتے ہوئے اسے عرب فوجی اتحاد سے بھی خارج کردیا، جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں سنگین بحران پیدا ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سفارتی تعلقات ختم کرنے کا مقصد مرضی کی پالیسیاں تھوپنا ہے، قطر

عرب ممالک نے قطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ اپنے زمینی، آبی اور ہوائی راستے بھی بند کردیے ہیں۔ سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایس پی اے نے بتایا کہ ریاض حکومت نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں جب کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خطرات سے بچنے اور قومی سلامتی کے پیش نظر قطر کے ساتھ سرحدیں بھی بند کی جارہی ہیں۔ سعودی ایجنسی نے فیصلے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ قطر القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں اور باغی ملیشیاؤں کی حمایت کرتا ہے اور اس کے اقدامات سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سعودی عرب نے قطری حکام پر گزشتہ کئی سال کے دوران سنگین خلاف ورزیوں کا الزام بھی عائد کیا۔

بحرین نے قطر پر اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے اور سلامتی و استحکام کو خراب کرنے کا الزام لگاتے ہوئے باہمی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ قطر اخوان المسلمون سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔ مصر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مصر نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ اس کے ساتھ ہی مصر قطری جہاز اور طیاروں کے لیے اپنی بندرگاہ اور ہوائی اڈے بھی بند کر رہا ہے اور یہ فیصلہ قومی سلامتی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے قطری سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے 48 گھنٹے کی مہلت دی ہے۔ ابو ظہبی حکومت نے قطر پر دہشت گرد، انتہا پسند اور مسلکی تنظیموں کی حمایت کا الزام لگایا۔ یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت نے قطر کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا کہ قطری حکومت کے یمن کے دشمنوں کے ساتھ رابطے ہیں۔ یمن کی سرکاری ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ قطر کے حوثی باغیوں کے ساتھ تعلقات اور انتہا پسند تنظیموں کی مدد کھل کر سامنے آگئی ہے لہذا یمن حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کرنے والے فوجی اتحاد سے قطر کو خارج کرنے کے فیصلے کی تائید کرتا ہے۔

یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کرنے والے سعودی زیر قیادت فوجی اتحاد نے بھی قطر کی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قطر یمن میں دہشت گرد تنظیموں کی مدد کررہا ہے، لیبیا کے مشرقی علاقوں میں قائم حکومت نے بھی قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں، اگرچہ اس حکومت کی ملک کے بہت تھوڑے علاقوں میں عمل داری ہے۔ مالدیپ کی وزارت خارجہ نے قطر سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا اس پیش رفت کے نتیجے میں خلیج تعاون کونسل میں اب اومان واحد ملک رہ گیا ہے جس کے قطر کے ساتھ تعلقات برقرار ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، پاکستان

واضح رہے کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان ایران کے مسئلے پر کافی عرصے سے کشیدگی جاری تھی۔ گزشتہ ماہ منعقد ہونے والی انسداد دہشت گردی عرب اسلامی کانفرنس کے بعد قطری سرکاری پریس ایجنسی سے امیر قطر تمیم بن حماد کا بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے ایران کی تعریف اور تہران سے متعلق امریکی پالیسی پر تنقید کی تھی جس پر سعودی اور عرب میڈیا میں شدید ردعمل سامنے آیا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : سفارتی تعلقات ختم کرنے کا مقصد مرضی کی پالیسیاں تھوپنا ہے، قطر

بعد ازاں قطری ایجنسی کی جانب سے وضاحتی بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کی ویب سائٹ کو ہیک کرلیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ غلط بیان جاری ہوگیا تاہم عرب میڈیا نے اس وضاحت کو محض بہانے بازی قرار دیا۔ مارچ 2014 میں بھی قطر اور دیگر عرب ممالک کے درمیان اس لیے کشیدگی پیدا ہوگئی تھی کہ قطر مبینہ طور پر اخوان المسلمون کی حمایت کررہا تھا اور اس مسئلے پر کئی عرب ممالک نے قطر سے اپنے سفیر بھی واپس بلا لیے تھے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 7 عرب ممالک کا قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا معاملہ ان کا اپنا اور ذاتی ہے اور اس حوالے سے پاکستان دیگر ممالک کے دو طرفہ تعلقات پر تبصرہ نہیں کرتا۔

قطر کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، مصر، یمن، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بے بنیاد الزامات لگا کر تعلقات ختم کیے اور اس اقدام کا کوئی قانونی جواز نہیں، ان اقدامات کا مقصد ہم پر اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرنا ہے، جو بطور ریاست قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔