پرال میں بطور ڈائریکٹر کام کرنیوالے ایف بی آر افسران کیخلاف تحقیقات کا حکم

احتشام مفتی  اتوار 7 اپريل 2013
چیئرمین ایف بی آرکو پیپرا رولز پر سختی سے عملدرآمد، پرال میں مراعات حاصل کرنے والے افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی اور ریکوری کا حکم.  فوٹو: فائل

چیئرمین ایف بی آرکو پیپرا رولز پر سختی سے عملدرآمد، پرال میں مراعات حاصل کرنے والے افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی اور ریکوری کا حکم. فوٹو: فائل

کراچی: عدالت عالیہ نے پاکستان ریونیوآٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کو ایک غیرسرکاری ادارہ قراردیتے ہوئے اس میں ڈائریکٹرزکے عہدوں پر کام کرنے والے ایف بی آر افسران کے خلاف قومی احتساب بیورو کوتحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔

جبکہ چیئرمین ایف بی آر کو پی پی آراے رولز پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرنے اور پرال میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے مراعات حاصل کرنیوالے ایف بی آر افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کے ساتھ ان سے ریکوری کی بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ پٹیشن نمبر3031 کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ نجی ادارے پرال میں ایف بی آرافسران کس حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں، عدالت عالیہ نے اس امر پر بھی انتہائی حیرت کا اظہار کیا کہ پرال میں کام کرنیوالے ڈائریکٹرز کا تعلق ایف بی آر بالخصوص فنانس ڈپارٹمنٹ سے ہے۔

دوران سماعت پرال انتظامیہ اپنی حمایت میں کوئی بھی ایسی دستاویز فراہم کرنے میں ناکام رہی جس سے پرال کا ایف بی آر سے تعلق ثابت ہوسکے بلکہ پرال انتظامیہ نے یہ موقف پیش کیا کہ پرال کا منافع ایف بی آر کو منتقل کیا جاتا ہے لیکن پرال انتظامیہ منافع کی ایف بی آر کومنتقلی کا میکنزم عدالت بتانے سے بھی قاصر رہی۔ سماعت کے بعد اسلام آبادہائی کورٹ نے نیب کوہدایات جاری کیں کہ وہ پرال میں کام کرنے والے ان ایف بی آرافسران کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرے جنہوں نے سول سروس میں شمولیت اختیار کرنے کے باوجود ’’پرال‘‘ میں شمولیت اختیارکی کیونکہ یہ سول سروس رولز کی خلاف ورزی ہے لہٰذا عدالت عالیہ ان کے اس اقدام کومجرمانہ تصورکرتے ہوئے سیکشن 5کے پریوینشن آف کرپشن ایکٹ مجریہ1947کے تحت مقدمات چلانے کی ہدایت کرتی ہے۔

1

واضح رہے کہ عدالت میں دائر کردہ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر ایک قومی ادارہ ہے جس میں پرال کوغیرقانونی طور پر قائم کرکے آپریشنل کیا گیا اور پرال بغیر کسی کنٹریکٹ وآڈٹ کے عوام کی رقم کو بھی استعمال کررہی ہے۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ پرال نے ون کسٹمز، اسٹار، اسٹریم اور وی بوک کلیئرنس سسٹم نامی پراڈکٹس بنائیں لیکن یہ تمام پراڈکٹس مطلوبہ نتائج کے حامل نہیں رہی ہیں بلکہ ان پراڈکٹس کے متعارف ہونے سے حکومت کو ریونیو کی مد میں خطیر نقصان پہنچا، پرال کے تیار کردہ نقائص کے حامل ان پروڈکٹس کی وجہ سے ہرسال حکومت کو ریونیو شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ فیڈرل بورڈآف ریونیوکے اعلیٰ افسران بیک وقت ایف بی آراورپرال میں ڈائریکٹرکے عہدوں پر فائزرہے اور پبلک پری کیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی( PPRA) رولزکو نظراندازکرنے کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان کا یہ طرزعمل عدالت عالیہ کی نظرمیں اپنی سروس سے بددیانتی ہے جوقومی خزانہ کو خطیر نقصان کا باعث بھی بنا ہے۔ عدالت عالیہ نے نیب کوہدایات جاری کی ہیں کہ وہ محکمہ کسٹمزاورپرال کے افسران کے خلاف قانونی کارروائی کرے جنھوں نے ذاتی مفاد کیلیے قومی خزانہ کو نقصان پہنچایا۔ عدالت عالیہ نے تحقیقاتی رپورٹ 3 ماہ میں مکمل کرکے ڈپٹی رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کی بھی ہدایات جاری کیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ کئی سال سے ایف بی آر کے متعدد ممبرز سمیت دیگراعلیٰ افسران پرال کے ڈائریکٹرزکے عہدوں پرتعیناتی کو اپنا قانونی حق تصور کرتے تھے جس کا خمیازہ ملک کوافغان ٹرانزٹ ٹریڈاسکینڈل کی صورت میں بھی ملا ہے۔ ٹریڈ سیکٹر کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ پرال کے تیار کردہ سافٹ ویئر سسٹمز تاجربرادری کیلیے سہولتوں کے بجائے پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنے ہیں، پرال کے تیار کردہ وی بوک کلیئرنس سسٹم سے بھی درآمدوبرآمدکنندگان بری طرح مایوس ہوچکے ہیں اور اس نظام میں متعدد خامیوں، کلیئرنس میں تاخیر ودیگر عوامل کے منفی اثرات ٹریڈ سیکٹر پر براہ راست مرتب ہورہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔