سانحہ ماڈل ٹاؤن پر چیف جسٹس کا سوموٹو چند معروضات
سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ اس وقت عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ اس کی تاخیر میں کوئی حکومتی ادارہ ذمے دار نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انصاف میں تاخیر پر سو موٹو نوٹس لے لیا ہے۔ میں ذاتی طور پر چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے اب تک لیے جانے والے سو موٹو نوٹس کے حق میں ہوں کیونکہ یہ عوامی مفاد میں لیے گئے ہیں۔ عام آدمی کی بہتری اور اس کے حقوق کے تحفظ کے لیے لیے گئے ہیں۔ صحت کی سہولیات عوام تک پہنچانے کے لیے لیے گئے ہیں۔ صاف پانی کے لیے لیے گئے ہیں۔ اس لیے ان کی مخالفت کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔
ادھر نواز شریف ہیں جو ان سو موٹو کی مخالفت کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے پاس بھی ان سو موٹو کی مخالفت کے لیے کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے، وہ صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس کو اٹھارہ لاکھ سے زائد تعداد میں زیرا لتوا مقدمات پر بھی سو موٹو نوٹس لینا چاہیے اور ان مقدمات کے جلد از جلد فیصلوں پر توجہ دینی چاہیے۔
بہر حال بات سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انصاف کی تاخیر پر ہو رہی ہے اور چیف جسٹس کا سو موٹو بھی اسی لیے ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ اس وقت عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ اس کی تاخیر میں کوئی حکومتی ادارہ ذمے دار نہیں ہے۔ اس طرح یہ سو موٹو لے کر چیف جسٹس نے نواز شریف کی یہ خواہش بھی پوری کر دی ہے کہ عدلیہ میں زیر التوا مقدمات پر چیف جسٹس توجہ دیں۔ لیکن پھر بھی اس حوالے سے میری چند گزارشات ہیں۔
پاکستان میں جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا ایک فیش بن گیا ہے۔ بالخصوص قتل کے مقدمات میں جھوٹی ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہیں۔ مقتول کے ورثاء قاتل کے سارے خاندان کو پھانسی لگوانے کے چکر میں حقائق کے بر عکس اور جھوٹی ایف آئی آر درج کراتے ہیں۔ اس طرح حقیقی قتل بھی عدالت میں آکر جھوٹا بن جاتا ہے۔ قتل کی ایف آئی آر میں مقدمے کو مصنوعی طور پر مضبوط کرنے کے چکر میں جھوٹے گواہ ڈالے جاتے ہیں۔
جن کا اصل وقوعہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہو تا۔ ان جھوٹے گواہوں کے بل بوتے پر قاتل کے دیگر رشتہ داروں کو بھی قاتل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پولیس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ایک نہیں نوے فیصد سے زائد قتل کے مقدمات میں ایسا کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اصل قاتل بھی قانون کے شکنجے سے بچ جاتا ہے۔ جس کے بعد مقتولین کے ورثا اکثر یہ دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ انھیں انصاف نہیں ملا۔ ان کا قتل ہوا لیکن عدالت نے قاتل بری کر دیے۔ لیکن کوئی بھی مقتول کے ورثا سے یہ سوال نہیں کرتا کہ انھوں نے اپنے قتل کو خود ہی خراب کیوں بنایا۔ عدلت نے تو حقائق کی روشنی میں ہی فیصلہ کرنا ہے۔ اگر حقائق جھوٹے ثابت ہو جائیں تو عدالت کے پاس ملزمان کو بری کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔
اپنے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ میرے جاننے والوں میں سے ایک کی بہن نے ایک رات اپنے خاوند کو گھر میں ہونے والی لڑائی کی وجہ سے قتل کر دیا۔ جب قتل ہوا میاں بیوی گھر میں اکیلے تھے۔ قتل کے بعد بیوی نے خود ون فائیو پر فون کیا اور پولیس کو اطلاع دی کہ اس نے اپنے خاوند کو گھر میں ہونے والی لڑائی کیو جہ سے چھریاں مار کر ہلاک کر دیا ۔ لیکن جب مقتول کے ورثا نے مقدمہ کی ایف آئی آردرج کرائی تو خاتون کے چاروں بھائیوں کو بھی قتل میں شامل کر دیا۔ اور جھوٹے گواہوں کے ساتھ یہ وقوعہ بنا یا کہ اس کی بھاوج کے بھائیوں نے ہمارے بھائی کو چھریاں مار کر قتل کر دیا۔
خاتون کے بجائے ا س کے بھائی قاتل بنا دیے۔ اب ایک طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ قتل ہوا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ چاروں بھائی قاتل نہیں تھے۔ پھر عدالت نے بھی چاروں بھائیوں کو بری کر دیا کیونکہ جھوٹی گواہیاں عدالت میں نہیں چل سکیں۔ یوں اس قتل میں کسی کو سزا نہ ہوسکی۔ میں آج تک سوچتا ہوں کہ اس نا انصافی کا ذمے دار کون ہے۔
کیا نظام انصاف اس کا ذمے دار ہے۔ یا مقتول کے ورثا اس ناانصافی کے ذمے دار ہیں۔کیا جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے والے اس کے ذمے دار ہیں۔لیکن چونکہ جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے والوں کے حوالے سے قانون نرم ہے اس لیے وہ بچ جاتے ہیں۔ یوں سچے قتل بھی جھوٹے ہو جاتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کے مقتولین کو انصاف ضرور ملنا چاہیے ۔ سیاسی مفادات سیاسی دشمنی اور سیاسی اہداف کے چکر میںمعاملات الجھا دیے گئے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ایسا تاثر ضرور ہے کہ کچھ حلقوںکا مقصد سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے خون کا حساب نہیں بلکہ اپنے سیاسی مقاصد کا حصول ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک درد ناک واقعہ ہے۔
جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن جن بیرئیر کو ہٹانے پر سارا تنازعہ ہوا وہ آج سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹ چکے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب حکومت ہٹانا چاہ رہی تھی تو اس وقت کیوں غلط تھا۔ لیکن اب جب کہ سو موٹو لے ہی لیا گیا ہے تو اس بات کا احاطہ بھی ہونا چاہیے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجی تھی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم آج تک اس ضمن میں حکومت کا موقف جاننے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ٹرائل کورٹ نے پولیس افسران اور دیگر انتظامی ذمے داران کو ملزم قرار دیا۔ جو شاید طاہر القادری کو قبول نہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں نوے فیصد قتل کے مقدمات کی طرح مدعین نے خود ہی اپنا کیس خراب کر لیا ہوا ہے۔ وہ پہلے سمجھتے رہے کہ عوامی طاقت اور مزاحمتی سیاست سے وہ اپنی مرضی کا انصاف حاصل کر لیں گے۔
پتہ نہیں کیوں میرے دوست یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید شہباز شریف کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ اسی لیے پنجاب میں جیوڈیشل ایکٹوزم نظر آرہا ہے۔ اور اب سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سو موٹو لے لیا گیا ۔ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ چیف جسٹس متعدد بار واضح کر چکے ہیں کہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں یقین کرکھنا چاہیے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سو موٹو کا بھی کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔یہ ایک معمول کا سو موٹو ہے۔ ا س سے زیادہ کچھ نہیں۔پر میرے کچھ دوست مجھے غلط کہہ رہے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں۔