پاک فوج عوام کے دلوں میں بستی ہے۔ سب یاد رکھیں
لوگ جانتے ہیں کہ ہر مشکل میں پاک فوج ہی ان کی مدد کرتی ہے اور فوج نے ہی پاکستان کا پرچم سر بلند رکھا ہوا ہے۔
اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ پورا ملک پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاک فوج کی ملک کے لیے خدمات نے عوام میں اس کے لیے محبت پیدا کی ہے۔ لوگ پاک فوج کو اپنی شان اور عزت سمجھتے ہیں۔ لوگ جوانوں کو سلوٹ کرتے ہیں اور فوج سے دیوانہ وار محبت کرتے ہیں۔
لوگ جانتے ہیں کہ ہر مشکل میں پاک فوج ہی ان کی مدد کرتی ہے اور فوج نے ہی پاکستان کا پرچم سر بلند رکھا ہوا ہے۔ اسی لیے ہزارہ کے معاملہ میں بھی ہزارہ کے عوام نے پاک فوج پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ہزارہ کے عوام کے ساتھ ہونے والے بے پناہ ظلم کے باوجود وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ صرف پاک فوج ہی ان پر ہونے والے مظالم کا مداوا کر سکتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے صرف پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی یقین دہانی پر اپنا دھرنا ختم کیا ہے۔ یہ مثال ان سب لوگوں کے لیے کافی ہے جو عوام میں پاک فوج کے خلاف نفرت کا بیج بونے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ کل بھی ناکام ہوئے تھے ، آج بھی ناکام ہونگے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے چند سیاسی رہنما اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے پاک فوج کو بے وجہ نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن آپ دیکھ لیں کہ ان نام نہاد عوامی نمایندوں کو ہزارہ کے بے گناہ مظلوم لوگوں کے پاس جانے کی جرات بھی نہیں تھی۔ وہ ایسے دم دبا کر بھاگ گئے جیسے ان کا معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہزارہ کے لوگوں نے پاک فوج پر اس نازک موقع پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس نے سب پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کر دیے ہیں۔ اسی طرح کراچی فاٹا کے عوام بھی امن قائم کرنے پر پاک فوج کے شکر گزار ہیں۔
نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد عدلیہ کے خلاف محاذ کھولا تھا۔ شائد انھیں اندازہ ہو گیا ہے کہ مجھے کیوں نکالا کی مہم میں انھوں نے عدلیہ پر جو چڑھائی شروع کی تھی اس کا جواب انھیں ملنا شروع ہو گیا ہے۔ آج نواز شریف کی سیاسی فوج کے تمام سپہ سالار قانون کے شکنجے میں پھنس چکے ہیں۔ دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔
طلال چوہدری جنہوں نے اپنی جارحانہ گفتگو کی وجہ سے ہی اگلی صفوں میں جگہ بنائی وہ بھی توہین عدالت کی زد میں آچکے ہیں۔ خواجہ آصف اقامہ پر نااہل ہو چکے ہیں۔ احسن اقبال بھی توہین عدالت کے نرغے میں نظر آرہے ہیں۔ اس لیے شائد نواز شریف کو اندازہ ہو گیا ہے کہ عدلیہ پر مزید چڑھائی ممکن نہیں۔ پاکستان کے آئین و قانون نے عدلیہ کو تحفظ فراہم کیا ہوا ہے۔ شائد نواز شریف کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اب عدلیہ کے خلاف ان کی محاذ آرائی میں ان کی پارٹی ان کا مزید ساتھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ سب کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ توہین عدالت کی زد میں آجائیں گے۔ اس لیے سب خاموش ہو گئے ہیں۔
اسی تناظر میں نواز شریف نے اب نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق کی اصطلاحیں استعمال کرنی شروع کر دی ہیں۔ ان بالواسطہ اصطلاحوں کے ذریعے وہ ملکی اہم اداروں کو نشانہ پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنا نیا محاذ ان کے خلاف کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جیسے ان کی عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی ناکام ہوئی ہے ایسے ہی ان کی اب یہ نئی حکمت عملی بھی ناکام ہو گی۔
آج نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ ایک ستون نے باقی ستونوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ کہاں ہے حکومت ۔ کہاں ہے حکومت کی رٹ۔ کوئی نواز شریف سے سوال کرنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کو بے وقعت کس نے کیا۔ کیوں جب آپ وزیر اعظم تھے تو پارلیمنٹ میں نہیں جاتے تھے۔ کیوں آپ نے اپنی جماعت کے ارکان کو اس بات کا پابند نہیں کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کو یقینی بنائیں۔ کیوں مسلم لیگ (ن) کے وزرا اور نواز شریف کی ٹیم کے ہراول دستہ میں شامل اہم وزرا پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتے رہے ہیں۔
کیوں نواز شریف بطور وزیر اعظم پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں رہے ہیں۔کیوں نواز شریف نے پارلیمنٹ کو ربڑ سٹمپ بنا کر رکھا۔نواز شریف نے خود ہی پارلیمنٹ کو ڈمی بنایا تھا اور آج وہ اس کی ذمے داری بھی دوسروں پر ہی ڈال رہے ہیں۔ ویسے تو عمران خان بھی پارلیمنٹ میں نہیں آتے ہیں۔ آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں کہ نواز شریف کی جماعت کے صرف اٹھارہ ارکان قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک تھے۔ کیوں باقی کے کہاں تھے۔ کیوں پنجاب اسمبلی میں روز کورم ٹوٹ جاتا ہے جب کہ وہاں ن لیگ کی اکثریت ہے۔
اگر نواز شریف کی صدارت کے بل کو پاس کروانے کے لیے ن لیگ کے تمام ارکان قومی اسمبلی میں آسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھر پور قوت کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے تو آج کیا رکاوٹ ہے۔ نواز شریف نے خود ہی پارلیمنٹ کو غیر فعال کیا ہے اور اب خود ہی اس کی ذمے داری پاک فوج پر ڈال رہے ہیں۔
شائد ان کا خیال ہے کہ عدلیہ نے تو توہین عدالت کے قانون کے ذریعے اپنا دفاع کر لیا ہے۔ لیکن دیگر مقتدر قوتیں نہ تو سیاسی بیانات کا جواب دے سکتی ہے اور نہ ہی سیاسی طور پر اپنا دفاع کر سکتی ہے۔اس لیے ان کو نشانہ بنا لیا جائے تو الیکشن مہم میں رنگ بھر جائے گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی نااہلیوں کا ذمے دار مقتدر قوتوں کو کیوں ٹھہراتے ہیں۔ کس نے ان کو انتخابی اصلاحات کرنے سے روکا۔ کس نے ان کو پارلیمنٹ کو فعال کرنے سے روکا۔ کس نے ان کو عدالتی اصلاحات کرنے سے روکا۔ کس نے ان کو ملک میں سیاسی اصلاحات سے روکا۔ جب یہ خود کوئی کام نہیں کرتے اور جو کام کرتا ہے اس کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
آج نواز شریف کی حکومت ہے، انھی کا وزیر اعظم ہے۔ انھیں کی فوج ظفر موج ہے ۔ لیکن وہ ملک میں روپے کی قدر گرنے کا ذمے دار بھی نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق کو ٹھہرا رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ جیسے جیسے گرمی بڑھ رہی ہے، لوڈ شیڈنگ بڑھے گی تو وہ اس کا ذمے دار بھی نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق کو ہی ٹھہرا دیں گے۔ نواز شریف اپنی نااہلیوں کی ذمے داری بھی اب کسی خاموش دشمن پر ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں۔
نواز شریف کو سمجھنا چاہیے کہ انھیں بے وجہ قومی اداروں سے محاذ آرائی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ ان کے لیے اور پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ پاکستان نے انھیں بہت عزت دی ہے، اقتدار سے نوازا ہے، انھیں پاکستان کے قومی اداروں کا احترام کرنا چاہیے۔ وہ یہ دھمکی آمیز رویہ بھی بند کریں کہ ان کے سینے میں بہت سے راز ہیں۔ اگر تو پاکستان کے مفاد کے راز ہیں توانھوں نے ان رازوں کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ اور اگر کچھ اور ہے تو انھیں فوری بتا دینا چاہیے۔ وہ پاکستان کے عوام کی امانت ہیں۔وہ پاکستان کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتے۔
پاک فوج نے گزشتہ پانچ سال میں پاکستان میں امن کے لیے بہت کام کیا ہے۔ پاک فوج نے جمہوریت سے زیادہ عوام کی خدمت کی ہے۔ عوام پاک فوج کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس نئی مہم جوئی کا نواز شریف کو بہت نقصان ہو گا۔ جس کا شائد ان کی جماعت کے ذمے داران کو انداذہ ہے اس لیے باقی سب خاموش ہیں۔