سندھ میں پی ٹی آئی کی قیادت میں مضبوط اپوزیشن کا ظہور

جی ایم جمالی  بدھ 1 اگست 2018
25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں سندھ میں پیپلز پارٹی دوبارہ اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے

25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں سندھ میں پیپلز پارٹی دوبارہ اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے

 کراچی: 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں سندھ میں پیپلز پارٹی دوبارہ اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔

گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) سمیت کوئی جماعت سندھ میں پیپلز پارٹی کو شکست نہیں دے سکی۔ سندھ اسمبلی کے 168 کے ایوان میں سے پیپلز پارٹی کے پاس مخصوص نشستیں ملا کر 98 ارکان ہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی کو فی الحال سندھ میں حکومت سازی کے لیے کسی جماعت سے اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ سندھ میں حکومت سازی کا مرحلہ آئندہ چند روز میں مکمل ہو جائے گا اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے اعلان کے مطابق سندھ کے آئندہ وزیر اعلی سید مراد علی شاہ ہی ہوں گے۔

سید مراد علی شاہ اس سے قبل بھی وزیر اعلی سندھ رہ چکے ہیں ۔ وہ انتہائی محنتی انسان ہونے کے ساتھ ساتھ حکومتی امور سے متعلق اہداف کو مکمل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ وزیر اعلی سندھ کے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد مراد علی شاہ کو مختلف چیلنجز درپیش ہوں گے۔ وہ اپنی کابینہ میں کن ارکان کو شامل کرتے ہیں۔

سندھ حکومت کے مرکز کے ساتھ حکومتی امور سے متعلق تعلقات کس انداز میں رہیں گے، اس کا اندازہ تو آنے والے وقت میں ہو گا۔ پی ٹی آئی پہلی مرتبہ ممکنہ طور پر مرکز میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو تو مرکز میں حکومت کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ سیاسی طور پر ایک دوسرے کے مخالف جماعتیں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی حکومتی معاملات میں کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گی ۔ تاہم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ورکنگ ریلی شن شپ کے ذریعہ ہی مرکز اور سندھ میں قائم ہونے والی حکومتیں مل کر عوامی مسائل کے حل کے لیے بہتر انداز میں کام کر سکتی ہیں۔

ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی گذشتہ ہفتے ہونے والے عام انتخابات کے نتائج پر پی ٹی آئی کے علاوہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، متحدہ مجلس عمل، مسلم لیگ (ن)، پاک سرزمین پارٹی اور دیگر جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھ گئے ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں تیزی کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہو رہی ہیں اور چیف الیکشن کمشنر سے استعفٰی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

پیپلز پارٹی کی قیادت نے کراچی میں طویل مشاور ت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کے ارکان حلف اٹھائیں گے اور پارلیمان میں جا کر الیکشن نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں جا کر اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز کریں گے۔ ان کے ہمراہ ان کے والد آصف علی زرداری بھی ہوں گے۔ آصف علی زرداری کو پارلیمانی سیاست کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اس لیے بلاول بھٹو زرداری کو پارلیمانی سیاست میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

پیپلز پارٹی کی ایک7 رکنی رابطہ کار کمیٹی مسلم لیگ (ن) ، ایم ایم اے ، اے این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر رہی ہے تاکہ مرکز میں ایک مضبوط اپوزیشن بن سکے ۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی ممکنہ وفاقی حکومت کو پارلیمان میں مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ سیاسی حالات سے یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں انتخابی نتائج کے حوالے سے جلد ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کر سکتی ہے اور ان سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ممکنہ طور پر کراچی ہو سکتا ہے ۔

عام انتخابات میں کراچی میں حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں اور کراچی سے بڑے بڑے سیاسی برج الٹ گئے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال ، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر شہباز شریف، مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد ، سنی تحریک کے سربراہ محمد ثروت اعجاز قادری ، ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کراچی سے اپنی نشستیں ہار گئے ۔ انتخابی نتائج میں دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی ، جب پیپلز پارٹی لیاری سے اپنی آبائی نشست اور ایم کیو ایم اپنی مضبوط ترین نشست عزیز آباد ہارگئی اور ان دونوں نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔

طویل عرصے بعد کراچی کا سیاسی مینڈیٹ تقسیم ہو گیا ہے اور رواں انتخابات میں کراچی کی اکثریتی جماعت تحریک انصاف بن کر سامنے آئی ہے۔ کراچی کی قومی اسمبلی کی 21 نشستوں میں سے پی ٹی آئی کو 14 ، ایم کیو ایم کو 4 اور پیپلز پارٹی کو تین پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اسے تبدیلی قرار دے رہے ہیں ۔ کراچی میں ہونے والے انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی قومی اور سندھ اسمبلی کی ایک نشست بھی حاصل نہیں کر سکی ۔ اب پی ایس پی کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا تاہم پی ایس پی نے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر جماعتوں نے کراچی کے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ کراچی میں اکثریتی جماعت پی ٹی آئی کس طرح شہر قائد کے مسائل حل کرے گی۔

پاکستان تحریک انصاف نے مرکز میں حکومت بنانے کے لیے دیگر جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم سے بھی رابطے شروع کر دئیے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین نے کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے ملاقات کی اور انہیں باقاعدہ طور پر وفاقی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ۔ دونوں جماعتوں میں مزید رابطوں پر اتفاق ہوا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے بھی ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی اور انہیں اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنانے پر تبادلہ خیال کیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی آئندہ کی حکمت عملی کیا ہو گی۔

گورنر سندھ محمد زبیر نے انتخابی نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے اور انہوں نے اپنا استعفی صدر مملکت کو ارسال کر دیا ہے۔ محمد زبیر پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتے ہیں ۔و اضح رہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے وفاقی حکومت کے قیام کے بعد چاروں صوبوں کے گورنر کو تبدیل کرنے پر مشاورت مکمل کر لی ہے تاہم اس تبدیلی سے قبل ہی محمد زبیر نے گورنر سندھ کے منصب سے استعفی دے دیا ہے۔ گورنر سندھ کے عہدے پر ممتاز بھٹو ، منیر کمال اور دیگر کے نام زیر گردش ہیں ۔ اب نئے گورنر سندھ کون ہوں گے، اس کا فیصلہ تو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کرے گی۔

کراچی میں وفاقی سرکاری کوارٹرز سے قابضین کو بے دخل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر اسٹیٹ آفس نے کارروائی شروع کر دی ہے ۔ تاہم اسٹیٹ آفس کو اس کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان آبادیوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ہم قابضین نہیں ہیں۔ قانون کے مطابق کرایہ ادا کرتے ہیں۔ ان آبادیوں میں ریٹائرڈ یا وفات پا جانے والے ملازمین کے اہل خانہ طویل عرصے سے رہائش پزیر ہیں۔ ان مکینوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے انسانی ہمدردی کے تحت اپیل کی ہے کہ اسٹیٹ آفس کو کارروائی سے روکا جائے اور ہمیں بھی سنا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔