موروثی سیاست اور تحریک انصاف

پرویز خٹک نے موروثی سیاست میں تو شریف اور زرداری سمیت تمام خاندانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔


مزمل سہروردی September 04, 2018
[email protected]

پاکستان میں موروثی سیاست کو بظاہر برا سمجھا جاتا ہے۔ سارے لوگ اسے برا بھی کہیں گے لیکن پھر بھی سب اس کے سحر میں گرفتار ہیں۔ سوائے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے سب سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ جماعت اسلامی کو یہ بھی امتیاز حاصل ہے کہ اس میں جمہوریت بھی ہے۔ وہاں امیر جماعت اسلامی کا براہ راست انتخاب ہوتا۔ ممبر بننے کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔

ممبران کی فہرست موجود ہے اور وہ باقاعدہ امیر جماعت اسلامی سیکرٹ بیلٹ سے منتخب کرتے ہیں جب کہ باقی کسی سیاسی جماعت میں ایسا نہیں ہے۔ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی جماعت میں جمہوریت قائم کریں گے لیکن وہ پارٹی کے اندر موجود دھڑے بندی کی وجہ سے مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔ اب تحریک انصاف میں بھی ویسی ہی آمریت قائم ہے جیسی باقی سیاسی جماعتوں میں قائم ہے۔ فرد واحد کا راج۔ فرد واحد کی آمریت۔ٹکٹوں کی تقسیم اور وزارتوں کی تقسیم میں یہ آمریت کھل کر نظرا ٓئی ہے۔

تحریک انصاف نے موروثی سیاست کے خلاف بہت آواز اٹھائی ہے۔ انھوں نے اپنی مدمقابل سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاست کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا ہے بلکہ اسے ان کے لیے ایک گالی قرار دیا ہے۔ ن لیگ میں شریف فیملی کا راج۔ پی پی پی میں زرداری فیملی کا راج۔ جے یو آئی (ف) میں مولانا فضل الرحمٰن فیملی کا راج۔ اے این پی میں اسفند یار ولی کے خاندان کا راج۔ مسلم لیگ (ف) میں پیر پگاڑا خاندان کا راج۔ مسلم لیگ (ق) میں چوہدری خاندان کا راج۔ غرض کہ کسی بھی جماعت کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ہر جماعت میں ایک خاندان کا راج ملے گا۔

اس خاندان کے سب لوگ سیاست میں۔ سیاست ہی ان کا پیشہ۔ سیاست ہی ان کی عبادت۔ ایسے میں عمران خان نے کہا نہ تو میرے خاندان کا کوئی فرد سیاست میں ہے، میں اکیلا ہوں، نہ ہی میرے بعد میری سیاست میرے خاندان میں سے کسی کو وراثت میں منتقل ہو گی۔ عمران خان کے بیٹے لندن میں رہتے ہیں، اب جو بیگم ہیں ان کی سیاست میں دلچسپی کی کہانیاں آنا شروع ہو گئی ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ بڑے بڑے فیصلوں میں وہ شریک ہو تی ہیں۔ بہر حال عمران خان نے پاکستان میں موروثی سیاست کے خلاف ایک موثر آواز بلند کی۔ سیاست میں موروثی سیاست کو برائی کی جڑ سمجھنے والوں کو عمران خان کا موروثی سیاست کے خلاف نعرہ پسند بھی آیا۔ اور پڑھے لکھے صاحب رائے لوگوں نے عمران خان کے اس نعرے کی نہ صرف تائید کی بلکہ عمران خان کی حمایت کے لیے اس کو مکمل اور کافی وجہ قرار دیا۔

ان کا موقف تھا کہ صرف موروثی سیاست کے خاتمہ کے نعرہ پر بھی عمران خان کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ اس سے پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا گند صاف ہو جائے گا۔ ہم خاندانوں کے تسلط سے باہر آجائیں گے۔ سیاست پاک ہو جائے گی۔ میرے دوست مجھے سمجھاتے تھے کہ اگر صرف یہ ہو جائے تو ملک میں بہت بڑی تبدیلی آجائے گی۔ اسی کو تو تبدیلی کہتے ہیں۔

میں اپنے دوستوں کو سمجھاتا تھا کہ بات صرف کہنا کافی نہیں اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔کہنے سے تبدیلی نہیں آتی کرنے سے تبدیلی آتی۔ صرف کہنے کو عوام کو بیوقوف بنانا کہتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا تحریک انصاف ملک میں موروثی سیاست کا بت توڑ سکے گی۔دوست کہتے تھے کہ تحریک انصاف میں میرٹ پر ٹکٹ تقسیم کیے جائیں گے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ٹکٹ دئے جائیں گے۔

کارکنوں کو ٹکٹ دئے جائیں گے۔ میں کہتا تھا کہ یہ ممکن نہیں۔ دوست کہتے تھے کہ خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ ایک خاندان کو صرف ایک ٹکٹ دیا جائے گا۔ تحریک انصاف خاندانی سیاست اور خاندانی تسلط کے خلاف ہے۔ میں کہتا تھا کہ ملک میں جیتنے والے گھوڑوں کی منڈی کے آپ سب سے بڑے خریدار ہیں۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے۔ جیتنے والا گھوڑا اپنے رنگ نسل میں ملاوٹ نہیں ہونے دیتا۔ اس کی نسل خراب ہوجاتی ہے۔ سیکڑوں سالوں سے ان جیتنے والے گھوڑوں نے اپنے ر نگ نسل کی حفاظت کی ہے۔ وہ صدیوں کی بات ایک تحریک انصاف کے کہنے پر کیسے قربان کر دیں گے۔ لیکن دوست بضد تھے۔ اور مجھے غلط اور جاہل کہتے ۔

لیکن 2018کے انتخابات نے ثابت کر دیا کہ موروثی سیاست کے خلاف تحریک انصاف اور عمران خان کا نعرہ صرف نعرہ ہی تھا۔ وہ صرف مخالفین کو گندا کرنے کے لیے تھا۔ ورنہ اس پر تحریک انصاف کے عمل کرنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ سب سے پہلے عام انتخابات سے چند ماہ قبل جہانگیر ترین نے اپنی نا اہلی کے بعد اپنے بیٹے علی ترین کو ٹکٹ دے دیا۔

میں نے اپنے دوستوں کو بہت کہا دیکھ لو۔ لیکن میرے دوست کہنے لگے جہانگیر ترین کا معاملہ الگ ہے۔ انھوں نے عمران خان کے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے۔ لیکن پھر جہانگیر ترین کے بیٹے غیر متوقع طور پر ہار گئے۔ میرے دوستوں میں جوش و جذبہ واپس آیا۔ انھوں نے کہا دیکھ لو اگر تحریک انصاف میں موروثی سیاست کی بھی جائے گی تو ناکام ہو جائے گی۔ میں نے اپنے دوستوں کو بہت سمجھایا کہ علی ترین کے ہارنے کی وجہ موروثی سیاست نہیں ہے لیکن وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔

اب اپنے دوستوں کی تلاش میں ہوں لیکن وہ مل ہی نہیں رہے۔ اصل میں حکومت پہلے دس دنوں میں ہی تحریک انصاف کے ساتھ ایسی ہو گئی ہے کہ دوست بھی غائب ہو گئے ہیں۔ میں دوستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ گورنر ہاؤس ابھی تک کیوں نہیں گرائے گئے۔ انھیں کھیلوں کے پارک میں کیوں نہیں تبدیل کیا گیا۔ یہ کیا منطق ہے کہ عمران خان تو عوام کو تکلیف سے بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر پر سفر کرتے ہیں لیکن نواز شریف عوام کو تکلیف دینے کے لیے ہیلی کاپٹر پر سفر کرتے تھے۔ یہ کیامنطق ہے کہ ایجنسیوں نے عمران خان کو بتایا ہے کہ ان کی جان کو شدید خطر ہ ہے اس لیے وہ احتیاط کر رہے ہیں۔

لیکن جب ایجنسیوں نے نواز شریف کو یہ بتا یا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو وہ جھوٹ اور ڈھونگ ہے۔ جب عمران خان کے ساتھ سیکیورٹی چلے تو وہ ضرورت ہے لیکن جب نواز شریف کے ساتھ چلے تو پروٹوکول تھا۔ تحریک انصاف کا وزیر اعلیٰ ہیلی کاپٹر جہاز استعمال کرے تو ضرورت، شہباز شریف استعمال کرے تو عیاشی۔ آج بنی گالہ کی سیکیورٹی ضرورت ہے ،کل جاتی عمرہ کی سیکیورٹی گالی تھی۔ آپ تو مغرب کی مثالیں دیتے تھے کہ دیکھیں وہاں وزیر اعظم سائیکل پر پھرتا ہے۔ آپ نے خواب دکھائے تھے کہ یہاں بھی وزیر اعظم سائیکل پر پھرے گا۔ سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول ختم ہو جائے گا۔

بھائی آپ نے تو ریاست مدینہ بنانی تھی۔ باقیوں نے تو عوام سے ایسا کوئی وعدہ بھی نہیں کیا تھا۔ بھائی آپ نے تواس پر مخالفین کا بہت تماشہ لگایا ہے۔ عوام کو خوب بیوقوف بنایا ہے۔ اب اپنی باری آئی ہے تو کہہ رہے ہیں کہ زیادتی ہو رہی ہے۔ کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ تین ماہ تو دیں۔ کیا تین ماہ ہیلی کاپٹر استعمال کرنے دیں۔ جہاز استعمال کرنے دیں۔ کیوں یہ تو آپ کے وعدوں اور خوابوں سے انحراف ہے۔ اس کی تو ایک دن اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں تو آپ مغرب کے وزیر اعظم کی طرح چاہیے۔ سائیکل پر بغیر پروٹوکول سیکیورٹی کے گھومتے۔یہ آپ کا وعدہ ہے۔

بہر حال موروثی سیاست کی بات ہو رہی تھی۔ میں تو حیران ہوں کہ پرویز خٹک نے موروثی سیاست میں تو شریف اور زرداری سمیت تمام خاندانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ میں نے دوستوں کو کئی فون کیے کہ یہ پوچھ سکوں کہ پرویز خٹک کے خاندان کو چھ ٹکٹ تحریک انصاف نے ہی جاری کیے ہیں۔ لیکن وہ آج کل میرا فون نہیں سن رہے۔ کچھ چھپے چھپے پھرتے ہیں۔ یہی کہتے ہیں تین ماہ بعد بات کریں گے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پرویز خٹک کی بھابھی نفیسہ خٹک ،بھائی لیاقت خٹک،داماد عمران خٹک،بھتیجی ساجدہ خٹک،اور بیٹے ابراہیم خٹک کو تحریک انصاف کے کس اصول کے تحت ٹکٹ دئے گئے ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن اتنے ٹکٹ تو کبھی شریف خاندان نے اپنے خاندان کو نہیں دئے۔

زرداری کو بھی اتنے ٹکٹ اپنے خاندان کو دینے کی جرات نہیں ہوئی۔ پرویز خٹک نے پا کستان میں موروثی سیاست کے باب میں اپنا نام سر فہرست لکھو ا لیا ہے۔ اور تحریک انصاف ان کے اس کارنامے میں برابر کی شریک ہے۔ ویسے تو سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے کو کیوں ٹکٹ دیا گیا۔ اسد قیصر کے بھائی کو کیوں ٹکٹ دیا جا رہا ہے۔

ہر گھر میں دو ٹکٹ نظر آرہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں تو سیل لگی ہوئی تھی۔ راولپنڈی میں این اے 60میں تحریک انصاف کی قیادت نے اجلاس کر کے متفقہ قرار داد پاس کی ہے کہ شیخ رشید کے بعد ان کے بھتیجے راشد شفیق کو ٹکٹ موروثی سیاست ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ تحریک انصاف کی نظریاتی اساس کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن ان کی کون سنتا ہے۔ جیسے باقی سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کی کوئی نہیں سنتا ویسے یہاں بھی کوئی نہیں سنتا۔ اقتدار ملنا تھا مل گیا۔ اب ان کی کیا ضرورت۔ عوام کو بیوقوف بنانا تھا بنا لیا۔ اب کام ختم۔

مقبول خبریں