عمران خان کے ووٹرز کی پریشانی

عمران خان نے تو کہا تھا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے


مزمل سہروردی September 10, 2018
[email protected]

عمران خان نے اٹھارہ اگست کو پاکستان کے وزیر اعظم کا منصب سنبھالا۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے تو دس ستمبر کو انھیں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے 23 دن ہو چکے ہوںگے۔ ویسے تو عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے آغاز میں ہی سو دن کا ایک پلان دے دیا تھا۔ اور وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد بھی انھوں نے تین ماہ یعنی نوے دن ما نگے تھے کہ اگر نوے دن میں بہتری نہ آئے تو بیشک تنقید کی جائے۔ لیکن سیاست اور صحافت میں ایسا ممکن نہیں۔

عمران خان خوش قسمت ہیں کہ جب سے انھوں نے حکومت سنبھالی ہے، اپوزیشن نہ صرف آپس میں تقسیم ہے بلکہ خاموش ہے۔ کوئی بات ہی نہیں کر رہا۔ ن لیگ کو تو ایسے چپ لگ گئی ہے جیسے کسی نے کہہ دیا ہوکہ آواز نکلی تو جان نکال دیں گے۔ نواز شریف نے بھی ایک چپ سادھ لی ہے بلکہ انھوں نے پوری ن لیگ پر پابندی رکھ دی ہے کہ وہ ان کے حوالے سے کوئی بیان جار ی نہ کرے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کئی کئی دن نہیں بلکہ ہفتے چپ رہتے ہیں۔ خاموشی نے تو خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ کو بھی کھا لیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق بھی اپنی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی تو ویسے ہی تحریک انصاف کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے۔اگر آج عمران خان وزیر اعظم ہیں تو انھیں پی پی پی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اس لیے اب تک عمرا ن خان جن بھی مشکلات کا شکار ہیں وہ ان کی اپنی پیدا کی ہوئی تھیں۔ میڈیا نے بھی مناسب تنقید کی ہے۔ البتہ سوشل میڈیا کا جن عمران خان کو کھا رہا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا سے جنم لینی والی جماعت اور قیادت اب سوشل میڈیا کے ہاتھوں ہی مرنے جا رہی ہے۔

عمران خان سے ان کے ووٹرز کو کافی امیدیں تھیں۔ انھوں نے پڑھی لکھی مڈل کلاس کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ سسٹم سے شاکی لوگ ان کے گرد جمع ہوئے ہیں۔ لیکن عمران خان کو ادراک کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ووٹرز میں غیر مقبول ہو رہے ہیں۔ وہ جو عمران خان کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار تھے اب ان کا جذبہ ٹھنڈا پڑتا جا رہا ہے۔ وہ خاموش ہوتے جا رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کہتے ہیں سو دن انتظار کر لیں۔ اگر سو دن میں کچھ نہ ہوا تو ہم بھی عمران خان کو نہیں چھوڑ دیں گے۔ عمران خان سے ان کا ووٹر ایسے ہی ناراض ہو رہا ہے جیسے پنجاب میں پی پی پی کا ووٹر ان سے ناراض ہو گیا تھا۔

عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ وہ اب اپوزیشن میں نہیں ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ وہ ذہنی طور پر ابھی تک اپوزیشن میں ہیں۔ انھوں نے اپوزیشن میں جو ایک تقریر رٹ لی تھی وہ ابھی تک وہی تقریر دھراتے جا رہے ہیں۔ وہ خارجہ معاملات کو بھی اپوزیشن کی طرح ہی لے رہے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ انھوں نے امریکا کو بھی ن لیگ ہی سمجھ لیا ہے۔ پہلے اسد عمر نے امریکا کو مس ہینڈل کیا۔ پھر عمران خان نے خود سیکریٹری آف اسٹیٹ کے فون کو مس ہینڈل کیا۔ اب کسی حد تک امریکا سیکریٹری آف اسٹیٹ کے دورے کو بھی مس ہینڈل کیا گیا ہے۔ عمران خان کو ہر کام پاپولر سیاست کے تناظر میں کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ وہ اور ان کی ٹیم ہر کام میں کریڈٹ لینے کے چکر میں رہتے ہیں۔ لیکن خارجہ امور سنجیدہ امور ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا جیسے ملک سے تعلقات جس نازک مراحل میں تھے انھیں نا تجربہ کاری اور پاپولر سیاست کے شوق میں مزید خراب کیا گیا ہے۔ راستے مزید بند کرنا کوئی دانشمندی نہیں۔ بلکہ راستے بنانا ہی عقلمندی ہے۔

بہر حال ملک کے اندر کی بات کریں تو یہ 23دن بہت برے گزرے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں 46 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ٹول ٹیکس میں اضافہ ہو گیا ہے۔ بینکوں سے رقم نکلوانے کے لیے اے ٹی ایم فیس میں اضافہ ہو گیا ہے۔ شناختی کارڈ بنانے کی فیس میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لاہورمیٹرو بس کی ٹکٹ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ فرٹیلائزر کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ زرعی ٹیوب ویل پر سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔ یہ سب کام کسی امیر کو فرق نہیں ڈال رہے۔ آپ مان لیں ان سے غریب بھی کوئی زیادہ متاثر نہیں ہو رہا۔ عمران خان کا مڈل کلاس ووٹر اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ ان کے بجٹ پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بجلی کا بل مہینہ کا بجٹ خراب کرتا ہے۔ گیس کا بل بجٹ خراب کرتا ہے۔ اے ٹی ایم سے کون پیسے نکلواتا ہے۔لوڈ شیڈنگ زیادہ ہو گئی ہے۔ ایسے ہی لگتا ہے جیسے شریف برادران جاتے ہوئے بجلی شاپر بیگ میں بند کر کے ساتھ لے گئے ہیں۔ جب نگران دور میں شدید گرمی میں بجلی موجود تھی تو آج کیوں غائب ہے۔ اب کیوں ہر دو گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ن لیگ کے منہ میں زبان بھی نہیں رہی کہ وہ سوال ہی کر سکیں۔

عمران خان نے تو کہا تھا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ عام آدمی کا خیال تھا کہ عمران خان آئیں گے تو اگلے دن ہی کرپشن بند ہو جائے گی کیونکہ ساری کرپشن تو وزیر اعظم ہاؤس سے ہوتی تھی۔ جونہی عمران خان وزیر اعظم ہاؤس آئیں گے کرپشن کے سارے دروازے بند ہوجائیں گے۔ عمران خان جس روزانہ کی منی لانڈرنگ کے قصے کہانیاں سناتے تھے وہ بند ہو جائیں گی، وہ پیسہ ملک کی معیشت میں آجائے گا۔ ادھر کرپشن کا بٹن بند ہوگا دوسری طرف سے معیشت خوشحالی کا بٹن آن ہوجائے گا۔ ایک طرف سے لوٹ مار ختم ہوگی دوسری طرف سے مسائل کا حل شروع ہوجائے گا۔ ملک میں بجلی چوری پٹواری مافیا کی وجہ سے تھی۔ ادھر عمران خان آئیں گے دوسرے دن بجلی چوری ختم ہو جائے گی۔ عوام کی اپنی حکومت آ جائے گی۔ لوگ بجلی کے بل خود بخود دینے لگ جائیں گے۔ کنڈے ختم ہو جائیں گے۔ بنکوں کے باہر بجلی کا بل دینے کے لیے لائنیں لگ جائیں گے۔ بڑے بڑے بجلی چور جیل میں ہوںگے۔ یہ گردشی قرضہ سب فراڈ ہے۔ میں آپ تو بل دیتے ہیں ، یہ سب کرپٹ اشرافیہ کھا جاتا ہے۔

مسائل میں گھرے عمران خان سے لوگ مایوس ہو رہے ہیں۔ زبان زد عام ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ کوئی روڈ میپ موجود نہیں تھا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کیا کرنا ہے۔ ملک اناڑیوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ مڈل کلاس پر مہنگائی کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ کیا یہ آئی ایم ایف جانے کی تیاری ہے کہ پہلے ہی ساری شرائط پوری کی جا رہی ہیں ۔عمران خان نے سادگی کا نعرہ لگایا۔ چھوٹی کابینہ کا نعرہ لگایا۔ سب جھوٹ ثابت ہوا۔ پنجاب اور مرکز میں روز کابینہ میں ایسے اضافہ ہو رہا ہے جیسے لوٹ سیل لگ گئی ہے۔ وزیر پر وزیر بن رہا ہے۔ یہ کیسی سادگی ہے۔ چھوٹی کابینہ کے نعرے کہاں گئے۔

جہاں تک ڈیم بنانے کے لیے چندہ کی بات ہے۔ اس بارے میں چیف جسٹس پاکستان بہت زور لگا چکے ہیں۔ کتنے پیسے اکٹھے ہوئے سب کے سامنے ہے۔ اب عمران خان بھی زور لگا لیں۔ یہ کوئی کامیاب حکمت عملی نہیں ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ عمران خان خود بنی گالہ کیوں نہیں ڈیم میں دے دیتے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں بھی عمران خان اور ان کی ٹیم کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ گزشتہ حکومت نے ایک سو بیس ارب سے زمین خریدی تھی۔ وہ کہاں سے آئے تھے، انھوں نے تو کسی سے چندہ نہیں مانگا تھا۔ شاید کوئی و زیر اعظم کو چندے ، زکو ۃ اور خیرات میں فرق سمجھا سکے۔

مقبول خبریں