سندھ میں طالبات کے اسکول چھوڑنے کا تناسب کم نہ ہوسکا وزیر تعلیم سندھ

دیہی علاقوں میں سیکنڈری اسکول دوردرازقائم ہونا وجہ ہے، 1200 ملین وظائف پر خرچ کر رہے ہیں، وظائف کی ’’ویری فکیشن‘‘ جاری


Safdar Rizvi December 17, 2018
صوبے میں 42 ہزار اسکول ہیں، ایشیائی بینک سے کہا ہے کہ پرائمری اسکولوں کو ہی ہائی اسکول بنا کر دیں، سردار شاہ فوٹو : ایکسپریس

صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سندھ بھرکے سرکاری اسکولوں کی طالبات کووظائف کی تقسیم اوراس میں خاطر خواہ اضافے کے باوجود اسکولوں سے طالبات کا 'ڈراپ آؤٹ ریشو'(اسکول چھوڑنے کا تناسب) کم نہیں ہو سکا اورسندھ میں طالبات کاسالانہ وظیفہ 2.5 ہزارروپے سے بڑھا کر 3.5 ہزار روپے کیے جانے کے باوجود سیکنڈری تعلیم کی سطح پر سرکاری اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ ریشواب بھی موجود ہے جبکہ محکمہ تعلیم سندھ اس مد میں سالانہ1200ملین روپے خرچ کر رہا ہے ۔

جس سے 3لاکھ 40ہزارطالبات مستفید ہورہی ہیں تاہم طالبات کے ڈراپ آؤٹ ریشوکی بنیادی وجہ دیہی سندھ میں سیکنڈری اسکولوں کا دوردراز علاقوں میں قائم ہونا ہے جس کے لیے ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اپنے دفتر میں اخبارنویسوں کے ساتھ خصوصی گفتگومیں وزیرتعلیم نے بتایاکہ رواں تعلیمی سال میں چھٹی سے دسویں جماعت کی 50 فیصد طالبات کووظائف جاری ہوچکے ہیں تاہم مزید 50 فیصد کووظائف کی تقسیم روک دی ہے اورپہلے مرحلے میں تقسیم کیے گئے وظائف کی ''ویریفیکیشن''کی جارہی ہے جس کے بعد باقی ماندہ کووظائف جاری کیے جائیںگے ۔ طالبات کے ڈراپ آؤٹ ریشو پربات کرتے ہوئے صوبائی وزیرتعلیم کاکہناتھاکہ سندھ کے دیہی علاقوں میں طالبات کوپرائمری اسکول توجابجامیسرہیں تاہم جب وہ پرائمری سے پاس ہوکرسیکنڈری اسکول میں جاناچاہتی ہیں توسیکنڈری اسکول ان کے تعلقہ یااضلاع سے انتہائی دوراورمحدود تعدادمیں میسر ہیں جس کے سبب بڑی تعداد میں طالبات پرائمری پاس کرکے گھر بیٹھ جاتی ہیں۔

تاہم آئندہ 5 برسوں میں پرائمری اسکولوں کو ہائی اسکول میں تبدیل کرنے پر منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس سلسلے میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے کہاہے کہ وہ سندھ میں پہلے سے قائم پرائمری اسکولوں میں ہی ہائی اسکول بناکردیں جہاں 200طلبا کی انرولمنٹ ہووہاں ہائی اسکول بنادیں اس سلسلے میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے سروے بھی شروع کر دیاہے۔ وزیرتعلیم نے مزیدبتایاکہ سرکاری دستاویزات میں پورے صوبے میں 42ہزارسے زائد سرکاری اسکول ہیں تاہم ان میں سے 12ہزارسرکاری اسکول ایسے ہیں جوفعال نہیں ہیں ۔

ایسے اسکول بند کررہے ہیں جس کے بعد سندھ میں سرکاری اسکولوں کی تعداد30ہزاررہ جائے گی اوربند ہونے والے ان 12 ہزار سرکاری اسکولوں کابجٹ بھی30ہزارفعال سرکاری اسکولوں کوہی منتقل ہوجائے گا۔ ایک سوال پر وزیرتعلیم کاکہناتھاکہ وہ سندھ میں تعلیم کے بجٹ کے حجم سے مطمئن ہیں اور اس میں اضافے کاارادہ نہیں رکھتے کیونکہ سندھ میں تعلیم کے بجٹ کے حجم کامسئلہ نہیں بلکہ اس کے درست استعمال کامسئلہ ہے ورکس اینڈ سروسز کامحکمہ بھی ایسے اسکولوں پر کاغذی طورپر ترقیاتی کام کرتاہے جوغیرفعال ہیں تاکہ ترقیاتی کام نہ ہونے کی کوئی رپورٹ اعلیٰ حکام تک پہنچ ہی نہ سکے۔

تعلیمی اداروں میں سرمائی تعطیلات 22 تا 31 دسمبر ہوں گی
صوبائی وزیرتعلیم سردارعلی شاہ نے کہاہے کہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں موسم سرماکی تعطیلات میں فی الحال کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا رہی یہ تعطیلات اسٹیئرنگ کمیٹی کے فیصلے کے تحت 22 دسمبر سے 31دسمبرتک ہی ہوں گی اوریکم جنوری سے تعلیمی ادارے دوبارہ کھولے جائیں گی۔

اپنے دفترمیں بات چیت کرتے ہوئے وزیرتعلیم سندھ کا کہنا تھاکہ موسمیاتی تبدیلی کے سبب اب کراچی سمیت سندھ بھرمیں سردی کی لہرجنوری میں آتی ہے تاہم اس کے باوجود فی الحال موسم سرماکی تعطیلات کے شیڈول کوتبدیل نہیں کرسکتے کیونکہ اگرموسم سرماکی تعطیلات جنوری میں کریں گے تواسکول کھلتے ہی امتحان لیناممکن نہیں رہے گا، امتحانات میں تاخیر سے سیشن کے آغاز میں دیر ہو جائے گی اور اپریل سے نیا سیشن شروع نہیں ہو سکے گا لہٰذا اس معاملے پر ازاں بعد غور کریں گے۔

وزیر تعلیم کی بیٹی سرکاری اسکول میں پڑھ رہی ہے

سندھ کے وزیر تعلیم سردارعلی شاہ نے کہاہے کہ وہ سندھ سمیت پورے ملک کے واحد وزیرہیں جس کی بیٹی ایک ایسے سرکاری اسکول میں زیرتعلیم ہے جس میں تدریسی اوقات میں بجلی موجود نہیں ہوتی جبکہ طالبات کے بیٹھنے کے لیے ٹوٹا پھوٹا فرنیچر کلاس رومزکی زینت ہے تاہم اس کے باوجود ان کا خاندان اور خود ان کی صاحبزادی اب اس حقیقت کوتسلیم کرچکے ہیںکہ ان کی بیٹی کو اسی اسکول میں پڑھنا ہے۔ وزیرتعلیم کاکہناہے کہ انھوں نے اپنی صاحبزادی اور 2 بھتیجیوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرا کے سندھ کی بیوروکریسی کے ضمیر کو جھنجوڑا ہے۔

اپنے دفترمیں اخبار نویسوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیرتعلیم نے اپنی بیٹی کیف الوریٰ اور 2 بھتیجیوں عمیزا اور علیزا کے حیدرآباد کے سرکاری اسکول ''گورنمنٹ میرابائی اسکول ہیرآباد'' میں داخلے کے بعد کی صورتحال بتاتے ہوئے کہاکہ ان کی بیٹی کیف الوریٰ ابتدا میں کچھ پریشان تھی اورایک خستہ حال انفرااسٹرکچرکے حامل سرکاری اسکول کے ماحول کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں اسے مشکل پیش آرہی تھی تاہم میں نے اسے سمجھایا کہ اب اسی اسکول میں پڑھنا ہے اوریہاں کی طالبات کوہی اپنادوست بناناہے۔

وزیر تعلیم کاکہناتھاکہ جس اسکول میں انھوں نے اپنی صاحبزادی کا چوتھی جماعت میں داخلہ کرایا ہے وہاں صبح 9 بجے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جودوپہر ایک بجے تک جاری رہتی ہے اور عمومی طور پر تدریسی اوقات میں بجلی نہیں ہوتی اسکول میں بیٹھنے کے لیے موجود نشستیں (کرسیاں؍ ڈیسک) ٹوٹی پھوٹی ہیں، سماعت گاہ (آڈیٹوریم) ہے لیکن غیرفعال ہے، انھوں نے اسکول کے انفرااسٹرکچرکی بہتری کے لیے کوئی خاص فنڈ مختص کرایا اورنہ ہی سندھ کے کسی دوسرے اسکول پراس ادارے کوفوقیت دی، جوسندھ کے دوسرے اسکولوں کے ساتھ ہو گا وہی اس اسکول کے ساتھ بھی ہوگا۔

صوبائی وزیرتعلیم نے اس بات پربھی حیرت کا اظہار کیاکہ عام طورپر لوگ زبانی باتوں پر اعتبارنہیں کرتے تاہم میرے 'ایکشن' پر بھی معاشرے کے مختلف طبقوں نے اعتبار نہیں کیا، کئی روز تک سول سوسائٹی سمیت دیگرطبقہ ہائے زندگی کے افراد روزانہ کی بنیاد پر ہیرا بائی اسکول جاکراس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ کیا وزیر تعلیم نے محض ایک روزکے لیے اپنی بیٹی کو سرکاری اسکول میں داخل کرایا ہے یا وہ روزانہ اسکول آرہی ہے۔

ایک سوال پر وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ وہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے محکمہ تعلیم کے افسران کواس بات کا پابند کر سکتے تھے کہ وہ بھی اپنے بچوں کوسرکاری اسکول میں داخل کرائیں تاہم انھوں نے سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سمیت کسی کو پابند نہیں کیا بلکہ پوری بیوروکریسی کے ضمیر کو جھنجوڑا ہے۔ یادرہے کہ سندھ کے وزیر تعلیم سردارعلی شاہ نے 2 ماہ قبل 12 اکتوبرکو حیدرآباد کے سرکاری اسکول میں اپنی صاحبزادی اور دو بھتیجیوں کا داخلہ کرایا تھا وہ ان داخلوں کے لیے اپنے بھائی کے ہمراہ خود اسکول پہنچے تھے۔

مقبول خبریں