اپوزیشن کا ہر مطالبہ قبول مگر

اشرافیہ کے نظریاتی اور انسانی گھٹیا پن کا عالم یہ ہے کہ وہ غربت کے مارے پاکستانیوں کو بھوک سے بدحال مرتا دیکھ رہے ہیں


Zaheer Akhter Bedari December 25, 2018
[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے حکومت پنجاب کی کارکردگی (100 روزہ) پر ہونے والی تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ '' ہم اپوزیشن کی ہر بات (ہر مطالبہ) مان لیں گے لیکن احتساب نہیں رکے گا۔''

عمران خان نے کہا کہ اسمبلی میں ہر روز ڈرامہ ہو رہا ہے۔ ماضی میں حکومتیں پیسہ بنانے اور پارلیمنٹ کرپشن بچانے کے لیے استعمال ہوتی تھیں، دنیا کے وہی ملک خوشحال ہیں جہاں لوٹ مار نہیں ہو رہی ہے اپوزیشن فرما رہی ہے کہ ہم انتقام لے رہے ہیں۔ اپوزیشن کرپشن کے جن کیسوں کے حوالے سے یہ الزام لگا رہی ہے کہ ہم اپوزیشن سے انتقام لے رہے ہیں ۔

اس الزام کی حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کو جن کیسوں کا سامنا ہے وہ کیسز پرانے دور کے ہیں ہمارے دور کے نہیں۔ یہ کیسی دلچسپ حقیقت ہے کہ کرپشن کے حوالے سے ہم نے تو اپوزیشن کے خلاف کوئی کیس نہیں بنایا ،اپوزیشن کے خلاف جو کیس چل رہے ہیں وہ ماضی کی حکومتوں کے بنائے ہوئے ہیں اگر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو اپوزیشن کے حکومت پر لگائے جانے والے الزامات غلط اور موجودہ حکومت کے خلاف محض پروپیگنڈا ہی ثابت ہوتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جوکمیٹی پارلیمنٹ میں احتساب کرتی ہے، اس کا چیئرمین شہباز شریف کو بنادیا گیا ہے جس کی وجہ دنیا سے ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اپوزیشن کی جماعتیں کرپٹ لوگوں کو احتساب کمیٹیوں کا صدر بنا رہی ہیں اس پر ساری دنیا ہماری جمہوریت پر ہنس رہی ہے۔

ایک طرف اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ کو مقدس کہتی ہیں دوسری طرف کرپشن کے حوالے سے بدنام ترین شخص کو اس کمیٹی کا صدر بنادیا گیا ہے جو پارلیمنٹ میں احتساب کرتی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اپوزیشن شہباز شریف کو کمیٹی کا چیئرمین بنالے لیکن وہ احتساب کو نہیں روک سکتی، انھوں نے کہا کہ نئی نسل کا مستقبل اور ملکی سالمیت کرپشن فری پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب تک ملک سے کرپشن ختم نہیں ہوگی، پاکستان کے مستقبل کو خطرات لاحق رہیں گے۔

اس حقیقت کے پیش نظر اپوزیشن ہم سے یہ کہے کہ ''احتساب سے پیچھے ہٹ جاؤ۔ 22 سال پہلے میں کرپشن کے خلاف ہی سیاست میں آیا۔'' اپوزیشن پہلے پیسہ بنانے اس کے بعد اسمبلی کو کرپشن بچانے کے نام پر استعمال کرتے ہیں مگر اب یہ نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جائیداد کے کیسز میں 30-30 سال لگ جاتے ہیں۔ ہم سول پروسیجر کورٹس کا قانون لا رہے ہیں جس کے ذریعے ایک سال کے اندر اندر سارے سول کیسز کا فیصلہ ہو جائے گا۔ ہمیں کسانوں کو اوپر لانا ہے تاکہ جو زمین 40 من فصل دے رہی ہے۔

اس سے ہم 80 من فصل حاصل کریں۔ اگر صنعتوں کو رپیٹ نہیں دیں گے تو ان کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ اگر گورننس سسٹم ٹھیک ہو جائے تو ملک ٹیک آف کر جائے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کسی شرط کے بغیر ہماری مدد کی ، امداد کے بدلے ہم کو کوئی جنگ نہیں لڑنی ہے۔ ہم امن کے داعی ہیں اور اس کے لیے جو کردار ادا کرسکتے ہیں وہ کرتے رہیں گے، لوگ کہتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں نے کیا کیا۔ ماضی کی حکومت نے 100 ارب پروویڈنٹ فنڈ ہضم کرلیا ۔ جنوبی پنجاب کے 250 ارب روپے وہاں خرچ ہونے تھے وہ نہیں کیے گئے۔ جب انصاف نہ ملے تو لوگ علیحدگی کی باتیں کرتے ہیں۔

نئی حکومت آنے کے بعد نئی حکومت کو بے شمار سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ہماری مہربان اپوزیشن ہماری حکومت کی ناکامیوں کا بے جواز پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔ ہماری حکومت نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ علاقوں اور شہروں میں منصفانہ تقسیم ہوگی۔ ماضی کی حکومت نے پنجاب کا آدھا بجٹ لاہور پر خرچ کر دیا ۔ عمران خان نے کہا کہ سربراہ حکومت کی سب سے بڑی کوالٹی ایمانداری ہے۔ ان سو دنوں میں عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف کرپشن کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ قوم نے ان لوگوں کو کیسے برداشت کرلیا۔ جس کی حکمرانی پاکستان میں ہے اور اربوں کی جائیداد دوسرے ملکوں میں ہے۔ وہ شخص ملک کا وفادار کیسے ہوگا جس کی اربوں کی دولت ملک سے باہر بیرونی ملکوں میں ہو۔

عمران خان کا یہ سوال بڑا معروضی ہے۔ اپنی فراڈ سے کمائی ہوئی دولت اگر بیرونی ملکوں میں رکھی جائے تو اس کی ملک سے وفاداری مشکوک ہوجاتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں دولت رکھنے کی ذہنیت نئی نہیں لیکن اربوں روپے اور اربوں روپوں کی جائیداد ملک سے باہر رکھنے کا کلچر حال کا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ حضرات اپنے ملک میں اپنی دولت رکھنے سے اس لیے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کوئی ایسی حکومت نہ آجائے جو بیرون ملک دولت رکھنے کو ملک سے بے وفائی اور غداری نہ سمجھے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی سرمایہ، بیرونی ملکوں میں جا رہا ہے اور ملکی معیشت کمزور ہو رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب کوئی فرد ،افراد یا جماعتیں ملک کی دولت کو بیرون ملک لے جاتے ہیں وہ بھی اربوں روپوں کی شکل میں تو یہ ایک فطری بات ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز بھی وہ ممالک بن جاتے ہیں جہاں انھوں نے منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک کی اربوں کی دولت بیرونی ملکوں میں غیر قانونی ذریعوں سے جمع کر رکھی ہے۔ اربوں کی منی لانڈرنگ کی وجہ ملک معاشی بدحالی کا شکار بن جاتا ہے۔یہ کام یا ملک سے اس قسم کی غداری غریب طبقات مزدور اور کسان کر ہی نہیں سکتے کیونکہ اشرافیہ کی کرپشن کی وجہ سے غریب طبقات اپنے حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں وہ بددیانت اشرافیہ برسوں سے لوٹ مار میں لگی ہوئی ہے ۔

اس حوالے سے اشرافیہ کے نظریاتی اور انسانی گھٹیا پن کا عالم یہ ہے کہ وہ غربت کے مارے پاکستانیوں کو بھوک سے بدحال مرتا دیکھ رہے ہیں ۔ ہزاروں غریب پاکستانی مرد اور خواتین ہر سال دودھ اور غذا کی قلت سے جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ عالمی سروے ہر ملک میں بھوک بیماریوں سے موت کا شکار ہونے والوں کے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ناانصافیوں کا ذمے دار کیا سرمایہ دار طبقہ ہے؟ کیا حکمران طبقہ ہے؟ کیا سیاست دان طبقہ ہے؟ ملک میں پہلی بار کے خلاف احتساب کا آغاز کیا گیا ہے اور سابق حکمران اشرافیہ اپنی عوام اور وطن دشمنی میں اندھی ہو کر حکمرانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا رہی ہے ۔کیا عوام ان سازشوں سے لاعلم ہیں؟

مقبول خبریں