خدا کی قدرت

صوبوں کے درمیان این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے مسلسل کشمکش جاری رہتی ہے


Zaheer Akhter Bedari January 18, 2019
[email protected]

صدر مملکت عارف علوی نے قومی محاصل کی صوبوں میں تقسیم کا فارمولا طے کرنے اور آئینی ترمیم کے بغیر صوبوں کے حصے میں کمی کے لیے قومی مالیاتی کمیشن کی تنظیم نو کر دی ہے، اس ضمن میں جاری نوٹیفکیشن کے مطابق10 رکنی مالیاتی کمیشن کے سربراہ وزیر خزانہ اسد عمر ہوں گے، جب کہ دیگر ممبران میں چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ کے علاوہ پرائیویٹ ممبران میں سے پنجاب سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ ، سندھ سے اسد عمر سعید، خیبر پختوخوا سے مشرف رسول سان ، بلوچستان سے محفوظ علی خان شامل ہوں گے جب کہ وفاقی سیکریٹری خزانہ اسپیشل ایکسپرٹ کے طور پر این ایف سی ایوارڈ کے ممبر ہوں گے۔ پرانے این ایف سی ایوارڈ کے مطابق صوبوں کا حصہ 57.5 جب کہ وفاق کا حصہ 42.5 فیصد ہے۔

صوبوں کے درمیان این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے مسلسل کشمکش جاری رہتی ہے۔ مالی تقسیم پر صوبوں کے درمیان لڑائیاں ایک روایت بن گئی ہیں اور ہر سال اس مسئلے پر کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ سابق وزیر خزانہ شمشاد اختر نے این ایف سی میں صوبوں کے حصوں میں کمی کی تجویز دی تھی۔ وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ نیا مالیاتی کمیشن قابل تقسیم محاصل صوبوں میں تقسیم کے لیے این ایف سی ایوارڈ کو حتمی شکل دے گا۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ پرانے مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ زیادہ اور وفاق کا کم ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ اس وقت نافذ العمل پرانے این ایف سی ایوارڈ میں سیاسی اختلافات کو بھی کم کرکے این ایف سی کے تحت محاصل سے جوڑا جا رہا ہے اس اتفاقی تقسیم پر اپوزیشن نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

غریبوں کے اکاؤنٹس میں ہونے والی الٹ پھیر کی طرح ماضی میں صوبوں کے اور وفاق کے درمیان این ایف سی ایوارڈ کے مسئلہ پر شدید محاذ آرائی ہوتی رہی ہے۔ چھوٹے صوبوں کو یہ شکایت رہی ہے کہ قومی وسائل کی تقسیم میں چھوٹے صوبوں کا حق کم ہے، اس نا انصافی کے خلاف مسلسل احتجاج کی وجہ ہی چاروں صوبوں میں وسائل کی از سر نو تقسیم کا اہتمام کیا گیا۔ صدر مملکت نے نیا مالیاتی کمیشن تشکیل دیا ہے۔ یہی کمیشن صوبوں میں محاصل کی از سر نو تقسیم کرے گا۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ صوبوں اور وفاق کو جو محاصل دیے جاتے رہے ہیں کیا وہ عوام کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں؟ یہ سوال اس لیے کھڑا ہوتا ہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ ہر قسم کی مالیاتی ناانصافیوں سے پر ہے۔

قومی محاصل کی تقسیم سے لے کر آئی ایم ایف اور دوست ملکوں کی طرف سے دی جانے والی اربوں کی امداد کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ اس کا درست استعمال نہیں ہوتا۔ اس امداد کا بڑا حصہ اوپر ہی، اوپر والوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے عوام 71 سال سے صرف دو وقت کی روٹی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اول تو اس طبقاتی نظام کا حال یہ ہے کہ اس نظام میں ملک کے 98 فیصد عوام کو ترقی نام کی کسی چیز سے وابستہ ہی نہیں کیا جاتا۔ بجٹوں میں اگرچہ ترقیاتی اسکیموں کے نام پر اربوں روپے رکھے جاتے ہیں لیکن یہ اربوں روپے وزراء اور ممبران اسمبلی کے ذریعے ترقیاتی اسکیموں پر خرچ کیے جاتے ہیں اور وزراء غلطی سے یہ اربوں روپے اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔

بیچارے عوام دن رات محنت کر کے دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں اور خواص کی لوٹ مار کا اندازہ لگانا ہو تو غریب لوگوں کے اکاونٹس میں غیب سے اضافے والے اور چھومنتر سے چلے جانے والے اربوں روپوں کی ٹرانزیکشن پر نظر ڈالیں جن سے غریب اکاونٹ ہولڈر ہی ناواقف ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہی نہیں دنیا بھر میں جادوگر کسی کی ٹوپی غائب کر دیتے ہیں تو کسی کے جیب سے کبوتر نکال دیتے ہیں اور بیچارے عوام جادوگروں کے اس کمال سے دنگ رہ جاتے ہیں جب کہ ہمارے سیاسی اور حکمران طبقات کے جادوگر اپنے بینک لاکروں میں دولت رکھنے کے باوجود بچی ہوئی اربوں کی رقم ایسے غریب لوگوں کے اکاونٹ میں اس طرح ڈال اور نکال لیتے ہیں کہ صاحب اکاونٹ کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یہ سرمایہ دارانہ نظر بندی کا ایسا کھیل ہے۔

جس کا چمپیئن پاکستان ہے۔ وہ بیچارے غریب جن کے اکاؤنٹس میں اربوں روپوں کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے۔ حیرت سے گنگ رہ جاتے ہیں کہ انھوں نے تو زندگی میں تنخواہ یا مزدوری کے چند ہزار روپوں سے زیادہ کبھی دیکھے ہی نہیں پھر یہ اربوں روپے ان کے اکاؤنٹس میں کہاں سے آگئے کہ یہ پیسہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈ نظام سرمایہ دارانہ نظام کا جادو ہے جو ملکوں کے بجٹوں سے شروع ہو کر مالیاتی کمیشنوں سے ہوتا ہوا غریبوں کے اکاونٹس تک چلا جاتا ہے۔

اس چھو منتر میں کمی کے دعوے کے ساتھ ہمارے کرکٹر عمران خان حکومت کے اسٹیج پر آئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ سابقہ حکومتوں کے چھومنتر کی ٹانگوں میں رسی ڈالیں لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی اس لیے نظر نہیں آتی کہ سرمایہ دارانہ سائنس اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ پنجروں میں بند شیر چھومنتر کے زور سے پنجروں میں رہتے ہوئے وہ کچھ کر رہے ہیں جو آزاد لوگ نہیں کر سکتے اور مغرب کی سیاسی سائنس کے ذریعے یہ بھی ہوتا ہے کہ پنجرے کے اندر کے شیر سرمایہ دارانہ نظام کے روحانی ماہرین کی غیبی طاقت کے ذریعے اسی طرح پنجرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ جس طرح ریمنڈ ڈیوس لاہور کے بھرے بازاروں میں غریب پاکستانیوں کو کھلے عام قتل کر کے بغیر ٹرائل آزاد ہو کر امریکا چلا گیا تھا۔

مقبول خبریں