فاسد جذبات کا اخراج و تطہیر

شایان تمثیل  ہفتہ 31 اگست 2013
waqar.ahmed@express.com.pk

[email protected]

کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقوں (مشق تنفس نور، متبادل طرز تنفس، التسخیر، التصویر، التجلی، آئینہ بینی، بلور بینی، شمع بینی، ماہ بینی، آفتاب بینی، سایہ بینی اور مراقبے وغیرہ) سے انسانی اعصاب بے حد حساس ہوجاتے ہیں۔ اعصابی حساسیت سے ذہانت کی چمک بڑھتی ہے اور خود ترغیبی اور خود تصوری کا عمل نہایت آسان اور موثر ہوجاتا ہے۔ ناپختہ تصورات خام ذہنی کی علامت ہوا کرتے ہیں، نابالغ شعور کوئی سلسلہ تصور پختگی کے ساتھ قائم نہیں کرسکتا۔ ان مشقوں سے مزاج میں جو نزاکت اور حواس میں جو نفاست پیدا ہوتی ہے اس کا صحیح اندازہ ان تجربات سے گزرے بغیر نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگ ان مشقوں سے خواہ مخواہ دہشت زدہ ہوجاتے ہیں۔ انھیں اندیشہ ہوتا ہے کہ مشق کرتے ہوئے کسی جن، بھوت یا کسی اور طلسمی طاقت سے ان کا ٹکرائو نہ ہوجائے یا وہ پاگل نہ ہوجائیں، دماغ نہ چل جائے وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب اندیشہ ہائے بے بنیاد ہیں۔ ان مشقوں سے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں، شرط یہ ہے کہ ماہر فن اور دانائے رموز کی نگرانی اور رہنمائی میں کی جائیں اور ہر نئے مرحلے اور نئے مشاہدے اور تجربہ کے بارے میں رائے حاصل کرلی جائے۔ اگر کسی استاد کے بغیر یہ مشقیں شروع کی جائیں تو عین ممکن ہے دماغی نقصان کا سبب بن جائیں۔

کچھ قارئین کو ہم نے اخراج جذبات، خود اعتمادی کی کمی اور پرانی عادات سے چھٹکارا پانے کے لیے خودنویسی کا مشورہ دیا تھا جس کے بارے میں بھی لوگوں میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ خود نویسی (یا دوسری مشقوں کا) مطلب یہ نہیں کہ اخراج جذبات کے ذریعے آدمی کو ہر جذبے سے محروم کردیا جائے اور وہ مشین بن کر رہ جائے۔ جذبات زندگی کا زیور اور روح کی سجاوٹ ہیں۔ دنیا کا یہ حسین ترین کارخانہ، جذباتی قوت ہی سے تو چل رہا ہے۔ انسانیت کے دامن میں جذبات کے علاوہ اور دھرا کیا ہے۔ تہذیب تمدن کی تمام رنگینیاں، مذہب و عقائد کی تمام سرگرمیاں، جمالیات کی تمام رعنائیاں، فنون لطیفہ کے حیرت انگیز کرشمے، شعر و ادب کا شاہکار، حسن و عشق کی معجز نما مہمات اور انقلاب انگیز معرکے، یہ سب کے سب بس انسانی جذبات کی عجوبہ آفرینیاں ہیں۔ نفس انسانی کی کوئی تحریک یعنی کوئی جبلی جذبہ منفی نہیں۔ انتقام، حسد، رشک و عداوت، بغض و کینہ، بزدلی، بہادری، مایوسی، بیزاری، احساس کمتری، حرص، لالچ، ہوس! نیز ہر جذبہ معقول حدود میں انسان کی بقا کا ضامن ہے۔

اگر انسانوں میں انتقام کا جذبہ نہ ہوتا تو کوئی شخص کسی کے شر سے محفوظ نہ رہتا۔ حسد کی معقول اور صحت مند شکل رشک ہے، اگر ہم جذبہ رشک سے محروم ہوتے تو گویا ترقی کرنے کی صلاحیت کو کھو بیٹھتے۔ ہم دوسرے کو ترقی کرتے دیکھ کر بے چینی محسوس کرتے اور اسی کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں، ذہن کی صحت مند تحریک ہے، اسی طرح عداوت بھی ضروری ہے مگر ایک خاص حد تک۔ جرائم کا انسداد اسی طرح ممکن ہے کہ ہم مجرمانہ ارادوں سے دشمن کا سا برتائو کریں اور بعض کے ساتھ مفید استعمالات ممکن ہیں۔ اگر ہمیں غصہ نہ آئے تو ہم شجاعت کے وصف سے محروم ہوجائیں۔ کون نہیں جانتا کہ غم روح انسانی کے نفیس ترین جوہروں کو ابھارنے کا سبب ہوا کرتا ہے، بعض اوقات شدت غم انسانی کردار کو اس طرح تبدیل کردیتی ہے کہ شیطان فرشتہ بن جاتا ہے۔ بزدلی کا شائبہ ہمارے اندر نہ ہو تو ہم احمقانہ جسارت سے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیں۔ الغرض کوئی جذبہ منفی نہیں، ہر جذبہ بقائے حیات کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ اگر یہ جذبے مریضانہ صورت اختیار کرلیں اور نفسیاتی گرہیں (کمپلیکس) بن کر رہ جائیں تو ان مشقوں کے ذریعے فاسد جذبات کا اخراج اور تطہیر ضروری ہے۔

اسی طرح مریضوں کے خوابوں کے ذریعے تحلیل نفسی (PSYCHO ANALYSIS) کا کامیاب عمل کیا جاسکتا ہے اور ان کے ذہن میں جتنی فراموش شدہ تلخ یادیں دفن ہیں، ان کو کھود کر باہر نکالا جاسکتا ہے۔ تحلیل نفسی کی عام تیکنیک یہ ہے کہ معمول سے کہا جاتا ہے فلاں لفظ (مثلاً ڈر) سے تمہارے ذہن میں جتنے تصورات پیدا ہوئے ہیں، انھیں بے تکلفی سے بیان کردو۔ ہر خواب اپنی تعبیر اپنے ساتھ لے کر نمودار ہوتا ہے یعنی خواب کی تعبیر خواب کے اندر موجود ہوتی ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ خواب دیکھنے والے سے اجزائے خواب کے بارے میں پے در پے سوالات کیے جائیں، وہ خود مشابہت خیال کے قانون کے تحت اپنے خواب کی وضاحت کرتا چلا جائے گا۔

سانس کی مشقیں (جن کے بہت سے طریقے ہیں) تندرستی اور من درستی کے لیے غیرمعمولی فوائد کی حامل ہیں۔ سانس کی مشقوں کے ذریعے ہم کائنات کی اس حیات بخش طاقت ’’نسیم جان فزا‘‘ (پران) کو اپنے اندر داخل کرتے ہیں، جس پر کارخانہ تخلیق کی تمام سرگرمیوں کا انحصار ہے۔ سانس کی مشق اگر علی الصبح یعنی طلوع آفتاب سے قبل کی جائے تو اس کے فوائد میں سو فیصد اضافہ ہوجاتا ہے، پھر مغرب کے وقت اور رات کے کھانے کے ڈھائی تین گھنٹے بعد سونے سے قبل۔ لیکن اگر ان اوقات کی پابندی نہ ہوسکے تو اپنی سہولت و آسانی کے پیش نظر مشق تنفس نور یا متبادل طرز تنفس کے اوقات رکھے جائیں۔ سانس کی مشق کی بہتر نشست وہ ہے، جس کی تفصیل ہم بیان کرچکے ہیں لیکن بعض حضرات اس طرز نشست پر قادر نہیں ہوتے تو انھیں آرام دہ پوزیشن میں بیٹھ کر سانس کی مشق کرنی چاہیے۔ بعض حالات میں پرسکون طور پر لیٹ کر بھی سانس کی مشق کی جاسکتی ہے۔

بعض چلتے پھرتے بھی سانس کی مشق کرتے ہیں۔ منہ سے سانس لینا اور خارج کرنا طبعی عمل نہیں، بہتر یہ ہے کہ ناک کے سوراخوں سے سانس اندر کھینچی جائے اور اسی راستے خارج کیا جائے لیکن اگر زکام کے سبب ناک بند ہو تو ہونٹوں سے سانس کو اندر کھینچا اور خارج کیا جائے۔ بعض طلبا سوال کرتے ہیں کہ ہم ایک وقت میں سانس کے کتنے چکر کریں، تو عرض یہ ہے کہ چاہے وہ سانس کا ایک ہی چکر کیوں نہ ہو، مگر سانس اندر کھینچنے، سینے میں روکنے اور خارج کرنے کا وقفہ طویل ہونا چاہیے۔ وہ جتنی دیر تک سانس کو آہستہ آہستہ کھینچیں گے، جتنی دیر سانس کو سینے میں روکیں گے اور جتنی دیر میں سانس خارج کریں گے انتہائی بہتر اور مفید ہے۔ بعض حضرات پانچ منٹ میں سانس اندر کھینچتے ہیں۔

بیس منٹ تک سانس کو سینے میں روکتے اور دس منٹ میں خارج کرتے ہیں، اس قدر مشق و مہارت طویل عرصے کے بعد حاصل ہوتی ہے، ہر شخص کو اس قدر محنت طلبی اور مشقت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ سانس کی مشق خالی شکم کے ساتھ کی جائے اور آہستہ آہستہ ناف سے سینے تک ہوا بھری جائے اور تادیر سانس کو سینے، شکم اور بالائے ناف روکا جائے اور پھر آہستہ آہستہ خارج کیا جائے۔ سانس کی مشق میں آنکھیں بند کرنے سے ذہنی یکسوئی نصیب ہوتی ہے اور عجب طرح کی فرحت و تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ مشقیں نصابِ جسم، نصاب اعصاب، انداز فکر اور طرزِ احساس پر شدت و ہمہ گیری کے ساتھ اثر انداز ہوتی ہیں، تاہم متوقع فوائد حاصل ہونے میں وقت لگتا ہے اور اس دوران برابر لاشعوری مزاحمت جاری رہتی ہے۔ لاشعوری مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے کوشش نہ کریں۔ لاشعور کو اپنے مقام پر مزاحمت کرنے دیں اور آپ بجائے خود مشق جاری رکھیں۔ چند روز بعد آپ دیکھیں گے کہ لاشعوری مزاحمت کمزور پڑ رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔