افغان شہریوں کی بڑی تعداد طالبان کے بجائے مقامی اور نیٹو افواج کے ہاتھوں ہلاک ہوئی، اقوام متحدہ

ویب ڈیسک  منگل 30 جولائی 2019
 افغانستان میں یکم جنوری سے اب تک دہشتگردوں کی بجائے عام افراد کی ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے اور ان میں بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے۔ فوٹو: فائل

افغانستان میں یکم جنوری سے اب تک دہشتگردوں کی بجائے عام افراد کی ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے اور ان میں بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے۔ فوٹو: فائل

کابل: اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں معصوم شہریوں کی بڑی تعداد طالبان اور دہشت گردوں کی بجائے مقامی فوج، امریکی اور نیٹو اتحادی کے ہاتھوں لقمہ اجل بن رہی ہے۔

اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ سال 2019ء کے پہلے وسط میں 717 شہری افغان اور نیٹو افواج کے ہاتھ مارے گئے جبکہ تخریبی کارروائیوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں 531 باشندے لقمہ اجل بنے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ نئے اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں جب امریکا اور طالبان کی جانب سے امن مذاکرات کے شروع ہونے کا امکانات پیدا ہوئے ہیں۔

افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے معاون مشن (یواین اے ایم اے ) نے اپنے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ زیادہ تر امریکی طیاروں کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں میں 363 افراد لقمہ اجل بنے ہیں جن میں 89 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ اموات 2019ء کے پہلے 6 ماہ میں ہوئی ہیں۔

دوسری جانب امریکی افواج نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے اپنے اعداد و شمار قدرے درست ہیں کیونکہ امریکی افواج ہمیشہ ہی شہریوں اور غیرمسلح افراد کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتی ہیں تاہم انہوں نے اپنے اعدادوشمار پیش نہیں کیے۔

اس سے قبل اپریل کے مہینے میں بھی اقوامِ متحدہ نے عین یہی رپورٹ پیش کی تھی جس میں افواج کے ہاتھوں مرنے والے شہریوں کی بلند تعداد بتائی گئی تھی اور یہ رجحان اب بھی جاری ہے جس میں امریکی، افغانی، اتحادی اور نیٹو افواج کی جانب سے مسلسل شہریوں کی اموات ہورہی ہیں۔

تاہم اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے اس سال شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی ہوئی ہے اور کل 3,812 عام افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں تاہم رپورٹ میں اسے بھی ’صدماتی اور ناقابلِ برداشت ‘ قرار دیا گیا ہے۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ یکم جنوری سے اب تک افغانستان میں ملکی اور غیر ملکی افواج کے ہاتھوں 985 شہری مارے گئے یا زخمی ہوئے ہیں۔ یو این اے ایم اے کے سربراہ رچرڈ بینٹ نے کہا ہے کہ (شہریوں کی اموات پر) ہر فریق اپنی حرکات کی مختلف وضاحتیں پیش کررہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔