محبت کی دھرتی ’’جھنگ’’

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 3 نومبر 2019
سلطان باہو کے مدفن اور ہیرکے وطن کی تاریخ اور ثقافت۔فوٹو : فائل

سلطان باہو کے مدفن اور ہیرکے وطن کی تاریخ اور ثقافت۔فوٹو : فائل

صوبہ پنجاب کے عین وسط میں واقع محبت کی سرزمین ضِلع جھنگ، بِہ لحاظ رقبہ فیصل آباد ڈویژن کا سب سے بڑا ضِلع ہے جو 6،353 مربع کلومیٹر پر مُحیط ہے۔

جھنگ، ساندل بار کا اہم ضِلع ہے جس کی آبادی تقریباً 28 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ جھنگ صوبہ پنجاب کا وہ واحد ضِلع ہے جس میں تینوں دوآبے یعنی رچنا دوآبہ، چج دوآبہ اور سندھ ساگر دوآبہ شامل ہیں۔ 2009 میں چنیوٹ (جو جھنگ کی تحصیل تھی) کے ضِلع بننے سے پہلے ”کِرانہ ہِلز” کا کُچھ حِصہ بھی ضلع جھنگ میں شامل تھا۔

ہیر سیال کا ضِلع جھنگ، مشرق میں فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ، مغرب میں خوشاب، بھکر اور لیہ، شمال میں چنیوٹ اور سرگودھا جب کہ جنوب میں خانیوال اور مُظفرگڑھ کے اضلاع سے گِھرا ہوا ہے۔ 9 ضِلعوں سے مُتصل یہ ضِلع، شورکوٹ کینٹ سمیت اٹھارہ ہزاری، شور کوٹ، احمد پور سیال اور جھنگ کی چار تحصیلوں اور بے شمار مشہور قصبوں پر مُشتمل ہے۔

جھنگ پاکستان کے قدیم ترین اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس ضلع کا علاقہ ساندل بار کہلاتا تھا۔ بار، مقامی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گھنے جنگلات کے ہیں جہاں نہری نظام دست یاب نہیں ہوتا۔ یہ بار ساندل کے نام کی وجہ سے “ساندل بار” کہلانے لگا۔ ساندل پنجاب کے ہیرو ”دُلا بھٹی” کے دادا کا نام تھا۔ لوگ دریا کنارے چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتے تھے جنہیں ”جھوک” کہتے ہیں۔ 1974 میں محکمۂ آثارِ قدیمہ کی شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق جھنگ شہر اس وقت سے آباد ہے جب یہاں ”چندر گْپت موریا” کی حکومت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سکندرِاعظم سمندر کی طرف جاتے ہوئے اس علاقے کے کسی حِصے سے گزرا تھا۔ اسی طرح جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کے آثارِقدیمہ سے ملنے والے قدیم سِکوں پر ایک طرف گوتم بدھ اور دوسری طرف اشوک کی تصویر بنی ہے۔ یعنی جھنگ شہر اشوک سے بھی پہلے آباد تھا جو چندر گپت موریا کا پوتا تھا۔

اس علاقے کا پہلا مُفصل ذِکر 1526 میں لکھی گئی شہنشاہ بابر کی کتاب ”تُزکِ بابری” میں ملتا ہے، جس کے مطابق بھیرہ، خوشاب اور چناب کے آس پاس کے علاقوں کی حکومت سید علی خان کے پاس تھی۔ بابر نے اپنی کتاب میں خوشاب، بھیرہ اور چناب کی جن ریاستوں کا ذِکر کیا ہے، تاریخ دانوں کے لیے اس زمانے میں ان ریاستوں کا حدود اربع اور محلِ وقوع وغیرہ کا پتا لگانا ایک معما ہے۔ بابر کے حملے سے لے کر محمد شاہ کے دور تک تقریباً دو صدیاں، یہ علاقے غیرمعروف اور گم نامی کی گرد میں دبے رہے۔ مغلوں سے پہلے اس علاقے پر الگ الگ مہاجر قومیں اور آباد کار حکم رانی کرتے رہے جن میں سیال، لالی، ہرل، بھٹی اور داب شامل ہیں۔

ایک اور روایت کے مطابق جھنگ شہر کو 1288 میں رائے سیال نے اپنے مرشد حضرت جلال شاہ بُخاری سُرخ پوش کے کہنے پر آباد کیا تھا۔ 1334 میں مشہور سیاح ابنِ بطوطہ کا یہاں سے گُزر ہوا تھا۔ جھنگ کا پہلا باقاعدہ سیال حکم راں “مل خان” تھا جس نے 1460 میں حکم رانی قائم کی۔ اس کے بعد 360 سال تک مُختلف سیال حکم راں آتے جاتے رہے۔ ان حکم رانوں نے جھنگ کے ساتھ دیگر نزدیکی علاقوں کو شامل کر کے اسے بہت وسعت دی۔ یہاں تک کہ سرگودھا، فیصل آباد اور ٹوبے تک کا علاقہ جھنگ میں شامل ہو گیا۔ جھنگ کے آخری سیال حکم راں احمد خان تھے جنہوں نے 1812 سے 1822تک یہاں حکومت کی۔ احمد خان کے بعد حکومت سکھوں کے قبضے میں چلی گئی۔

جنہوں نے ملتان پر قبضہ کرکے اس علاقے کو بھی فتح کرلیا۔ 1848 میں سکھوں کو شکست ہوئی اور جھنگ کا علاقہ انگریز سرکار کے زیرِاثر چلا گیا اور 1849 میں جھنگ کو ضلع بنا دیا گیا جو اپنے دور کا بہت بڑا ضلع تھا۔ اس سے آگے جھنگ کے بٹوارے شروع ہوئے۔ 1851 میں بڑے پیمانے پر کافی دیہات ضلع ملتان میں شامل کیے گئے۔ پھر 1854 میں جھنگ تحصیل کا تعلقہ”فروکہ” تب کے ضلع شاہ پور (اب سرگودھا) میں شامل کر دیا گیا۔

1861 کے ابتدائی ایام میں اس علاقے کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ضلع شاہ پور سے ”کلووال” اور ضلع مظفرگڑھ سے ”گڑھ مہاراجا” اور آس پاس کے دیہات کاٹ کر جھنگ میں شامل کر دییے گئے اور اسی سال شور کوٹ کو تحصیل کا درجہ ملا۔ پھر 1890 میں ضلع جھنگ کی حدود کا ازسرِنو تعین کیا گیا جس میں لیہ کو جھنگ سے علیحدہ کرکے ضلع مظفر گڑھ اور حیدرآباد (آج کے ضلع بھکر کا ایک علاقہ)کو ضلع میانوالی میں شامل کیا گیا۔ پنڈی بھٹیاں کا علاقہ ضلع گوجرانوالہ کا حِصہ بنا دیا گیا۔ 1886 میں لائل پور تحصیل کو ضلع جھنگ کا حصہ بنا دیا گیا۔ 1900 میں سمندری اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو تحصیل کا درجہ دیا گیا اور 1904 میں لائل پور کو علیحدہ ضلع بنا دیا گیا۔

اسی سال میں کِرانہ بار کا تقریباً تمام حصہ تحصیل چنیوٹ سے ضلع شاہ پور کو منتقل کر دیا گیا۔ 1913 میں تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ کے32 بڑے دیہات جھنگ کی تحصیل شورکوٹ میں شامل کر دیئے گئے۔ 1947 میں آزادی کے بعد ضلع جھنگ کو چنیوٹ، احمد پور سیال اور شور کوٹ تحصیلوں کے ساتھ اسی طرح رکھا گیا۔ 2009 میں جب تحصیل چنیوٹ کو کاٹ کر پنجاب کا 36 واں ضلع بنایا گیا تو چنیوٹ کی جگہ اٹھارہ ہزاری کو جھنگ کی چوتھی تحصیل بنایا گیا۔ یہ ضلع پہلے ملتان پھر سرگودھا اور اب فیصل آباد ڈویژن کا حِصہ ہے۔

طبعی خدوخال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ضلع جھنگ کا تقریباً تمام علاقہ میدانی ہے، ماسوائے مغرب کے جہاں تھل کا صحرائی علاقہ واقع ہے جو دریائے جہلم کے کنارے سے شروع ہوتا ہوا خوشاب ، لیہ اور بھکر کے اضلاع تک جاتا ہے۔ اس علاقے میں ماضی میں جنگلات تھے اور یہ علاقہ کسی بھی قسم کی کاشت کے لیے موزوں نہیں تھا۔ انگریزی دورحکومت میں یہاں نہری نظام بنا کر پورے علاقے کو قابلِ کاشت بنایا گیا۔

ضلع جھنگ ہی وہ جگہ ہے جہاں اٹھارہ ہزاری کے قریب پاکستان کے دو بڑے دریاؤں چناب اور جہلم کا ملاپ ہوتا ہے۔ جھنگ شہر سے 25 کلومیٹر دور 1939 میں دریائے چناب پر تریموں بیراج بنا کر ”رنگ پور کینال” اور ”تریموں سدھنائی لنک کینال” نکالی گئیں۔ رنگ پور جھنگ سمیت ضلع مظفر گڑھ کو بھی سیراب کرتی ہے۔ جھنگ کے غیر زرعی رقبے پر نایاب جنگلات اور جھاڑیوں پائی جاتی ہیں ان میں بوہڑ، ہرمل، کیکر، جھنڈ اور وان شامل ہیں۔

اس ضلع کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 28 سے 43 جبکہ سردیوں میں 6 سے 27 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ اوسطاً سالانہ بارش 288 ملی میٹر ہے۔ آندھیاں اور طوفان بھی شدت سے آتے ہیں۔ نہری پانی کے بہترین نظام اور بارشوں کی بدولت یہاں کئی اقسام کی زرعی اجناس اگائی جاتی ہیں جن میں گندم، کپاس، گنا، چاول، چنے، جوار، تُرش پھل، آم، سرسوں اور تمباکو شامل ہیں۔ یہاں موجود اہم صنعتوں میں روئی بیلنے، اونی کپڑا بنانے، چینی کے کارخانے، برتن بنانے، کمبل بنانے اور کھیس و دریاں بنانے کی صنعت شامل ہے۔ حویلی بہادر شاہ کے مقام پر ایک پاور پلانٹ لگایا گیا ہے جہاں گیس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

بُودوباش کے حوالے سے یہ علاقہ بہت رنگین ہے۔ ثقافتی میلے، شادی کی دل چسپ رسومات، مختلف روایتی کھیل اور عرس وغیرہ جھنگ کی پہچان ہیں۔ اسی علاقے سے ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں جیسی رومانوی داستانوں نے جنم لیا۔ پنجاب کی چار لازوال محبت کی داستانوں میں سے دو نے اس دھرتی پر جنم لیا اور جھنگ کو محبت اور پیار کی دھرتی کے روپ میں امر کر دیا۔

ضلع جھنگ کے مشہور علاقوں میں مندرجہ ذیل شام ہیں:

1۔ گڑھ مہاراجا:

تحصیل احمد پور سیال کا علاقہ جسے شہاب الدین محمد غوری کی پہلی چھاؤنی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پہلے ”راج گڑھ” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ صوفی بزرگ حضرت سلطان باہوؒ کا مزار اسی قصبے میں ہے۔

2۔ شاہ جیونہ:

جھنگ سے 34 کلومیٹر دور واقع یہ شہر حسینی قلندری سلسلے کے مشہور صوفی بزرگ، سید محبوب عالم شاہ کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ مخدوم فیصل صالح حیات یہاں کے گدی نشین ہیں۔

3۔ ماچھی وال:

اس جگہ کا پرانا نام ”لوہ کوٹ” تھا۔ اروڑہ ہنس کے مطابق جہلم کے کنارے پر واقع اس شہر کی بنیاد بھی لاہور کی طرح رام چندر جی کے بیٹے نے رکھی تھی۔

4۔ کھیوا:

مشہور رومانوی داستان مرزا صاحباں کی صاحباں کا تعلق اسی گاؤں سے تھا۔

5۔ اٹھارہ ہزاری:

اٹھارہ ہزاری ایک لقب ہوا کرتا تھا جو ایسے سپہ سالار کو دیا جاتا تھا جو اٹھارہ ہزار کی فوج رکھتا ہو اور اس کا خرچ اٹھاتا ہو۔ مخدوم تاج الدین سیال یہاں کے اٹھارہ ہزاری سردار تھے۔ یہ شہر دریائے چناب پر واقع ہیڈ تریموں، اور مزار پیر تاج دین کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ یہاں چناب و جہلم کے شیریں پانیوں میں پائی جانے والی رہو مچھلی بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔ جھنگ کی اکثریتی آبادی کی مادری زبان پنجابی ہے لیکن کئی علاقوں میں سرائیکی بھی بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو بھی عام بولی جاتی ہے۔ یہاں کی پنجابی کا خاص لہجہ جھنگوی کہلاتا ہے۔ اس علاقے کا رہن سہن بہت سادہ ہے۔

دیہاتی خواتین زیادہ تر گھریلو دست کاریاں بنانے کا کام کرتی ہیں جن میں کھیس، دریاں، لُنگیاں اور چٹائیاں شامل ہیں۔ یہاں لنگیوں پر سونے کی تاروں سے کیا جانے والا انتہائی نفیس آر کا کام بہت مشہور ہے جو کافی مہنگا بھی ہے۔ جھنگ وہ واحد علاقہ ہے جہاں دیہاتی مردوں کے ساتھ خواتین بھی اپنے پہناووں میں لنگی/ لاچے کا استعمال کرتی ہیں۔ اس علاقے کے لوگ آج بھی اپنی ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں آج بھی پرانے علاقائی کھیل شوق سے کھیلے جاتے ہیں۔ گھڑ سواری، نیزہ بازی، کبڈی اور کشتی کے مقابلے متواتر منعقد کرائے جاتے ہیں۔ یہ کھیل پنجاب کی لوک ثقافت کا اہم حصہ ہیں جنہیں اہلیانِ جھنگ نے مرنے نہیں دیا۔

یہ ضلع صوفیاء اور مشاہیر کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ عرس اور میلے اس علاقے کی پہچان ہیں۔ جھنگ کی دھرتی پر سیکڑوں علماء اور صوفیاء کرام ابدی نیند سو رہے ہیں جن میں حضرت سلطان باہوؒ، حضرت سید جیون شاہ آف شاہ جیونہؒ، حضرت پیر تاج دینؒ، حضرت روڈو سُلطانؒ، حاجی احمد درویش بغدادیؒ، حضرت شاہ صادق ناہنگؒ، پیر آف سیال شریفؒ، حضرت حافظ فیض سلطانؒ، پیر نور احمد ہاشمیؒ، پیر گوہر شاہؒ، پیر ہتھے وانؒ، پیر آف اٹھارہ ہزاریؒ اور پیر آف ماہنی شریفؒ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی مشاہیر کی درباریں یہاں واقع ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ ان صوفیاء کے عرس میں شرکت کرنے کے لیے جھنگ کا رُخ کرتے ہیں۔

اولیاء کرام کے دربار کے بعد یہاں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل جگہ ”مائی ہیر” کا دربار ہے جو جھنگ شہر میں واقع ہے۔ مائی ہیر، جو ہیر رانجھا کی لازوال داستان کا ایک کردار ہے، اس علاقے میں محبت کی نشانی ہے۔ علاقے کے لوگوں نے اسی عقیدت کے تحت یہاں موجود اسٹیڈیم کو بھی ”مائی ہیر اسٹیڈیم” کا نام دے رکھا ہے۔

ضلع جھنگ کی اہم اور معروف شخصیات میں مشہور صوفی بزرگ حضرت سلطان باہوؒ ، وزیر خان (سردار جن کے نام سے مسجد وزیر خان منسوب ہے) علامہ ڈاکٹرطاہر القادری (اسکالر، سیاست داں)، مجیدامجد (شاعر)، علیم ڈار (کرکٹ امپائر)، محترمہ عابدہ حسین (سیاست داں)، ڈاکٹرعبدالسلام (نوبیل انعامِ یافتہ سائنس داں)، نذیر ناجی (صحافی و کالم نگار)، فیصل صالح حیات (سیاست داں)، اللہ دِتہ لونے والا (گلوکار)، محمود شام (صحافی)، سید ضمیر جعفری (شاعر)، شیخ وقاص اکرم ( سیاست داں)، منصور ملنگی (گلوکار)، غلام بی بی بھروانہ (سیاست داں) اور پیر حمید الدین سیالوی (گدی نشین دربار سیال شریف) شامل ہیں۔

اگرچہ جھنگ، فیصل آباد، سرگودھا ، ٹوبہ اور چنیوٹ سے بھی پہلے ضلع بنا دیا گیا تھا لیکن اس علاقے کی حالت آج بھی ویسی ہے۔ جھنگ ہی وہ علاقہ تھا جہاں انگریز سرکار کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس دھرتی کے سپوت رائے احمد خان کھرل نے ایک انگریز لیفٹیننٹ سمیت کئی انگریزوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ انگریز اس جسارت پر بپھر گیا اور بغاوت کو کچلنے کے ساتھ اس پورے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ مشہورِ زمانہ ڈاکوؤں اور غداروں کو جاگیریں الاٹ کی گئیں اور جھنگ کی پس ماندگی پر مہر تصدیق ثبت کردی گئی۔ یہاں کے محبت کرنے والے لوگوں کو انگریز سرکار نے سرکاری اصطلاح میں ”جانگلی” کا نام دیا۔ انگریز دور سے ہی اس علاقے کو ترقی سے دور رکھا گیا ہے اور آج بھی بدقسمتی سے جھنگ کا شمار پنجاب کے پس ماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔

اس علاقے سے کئی معروف سیاست داں منتخب ہوکر وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کے عہدوں تک پہنچے لیکن اس علاقے کی حالت نہ بدلی۔ نہ کوئی بڑی سرکاری یونیورسٹی، میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج اور نہ ہی کوئی بڑا سرکاری اسپتال بنا۔ ہر سال چناب میں آنے والا سیلابی ریلا اس علاقے کو نقصان پہنچاتا ہے، کھڑی فصلیں اور کئی دیہات زیرِآب آ جاتے ہیں لیکن حکم رانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

جھنگ شہر آج بھی کسی قدیم شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔ مائی ہیر اور صاحباں کا جھنگ آج بھی کسی مسیحا کا منتظِر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔