رحمتہ للعالمین ﷺ

مولانا مجیب الرحمن انقلابی  جمعـء 22 نومبر 2019
رحمتہ للعالمین ﷺ اعلانِ نبوت سے قبل ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔فوٹو: فائل

رحمتہ للعالمین ﷺ اعلانِ نبوت سے قبل ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔فوٹو: فائل

جب ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی، حضور اقدس ﷺ دنیا میں رحمتہ للعالمین بن کر تشریف لاتے ہیں اور اس آفتاب و ماہتاب کی روشنی سے پوری دنیا فیض یاب ہوئی۔ آپؐ کی تشریف آوری ایسی نعمت عظمیٰ ہے جسے قرآن مجید میں مسلمانوں پر احسانِ عظیم سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔

آپؐ سراپا رشد و ہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے کامل نمونہ ہیں اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ میں دنیا و آخرت کی فلاح و کام یابی کو مضمر کر دیا گیا ہے۔ آپؐ ابر رحمت بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفر و شرک اور ضلالت و گم راہی کے اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت کی روشنی سے منور کیا۔ آپؐ نے انسانیت سے گری ہوئی ایک ایسی قوم میں مثالی پاکیزہ اور باکردار روشن زندگی گزاری کہ جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کرنا بھی اپنے لیے توہین و عیب سمجھتا تھا۔

رحمتہ للعالمین ﷺ اعلانِ نبوت سے قبل ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ لوگ آپؐ کے پاس امانتیں رکھواتے اور معاملات کے فیصلے کرواتے، لیکن جب رحمتہ للعالمینؐ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اعلانِ نبوت کرتے ہوئے اُن کو بتوں کی پرستش ترک کرکے ایک خدا کی عبادت کرنے، اور آپؐ کی رسالت کی گواہی دینے کا کہا تو یہی قوم جو آپؐ کی پاک دامنی اور صدق و امانت کی قسمیں کھانے والی تھی وہی آپؐ کے خلاف ہوگئی، پھر آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے جانے لگے، آپؐ کو ہر طرح تنگ کرتے ہوئے ستایا جاتا۔ طائف کے میدان میں آپؐ کو توحید کی دعوت دینے کی پاداش میں پتھر مار مار کر لہولہان کر دیا جاتا ہے۔

ام المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے ایک مرتبہ آپؐ سے سوال کیا کہ کیا آپؐ پر احد سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا ؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ مجھے اذیّت و تکلیف طائف کی گھاٹی میں پہنچی جس دن میں نے عبد یالیل کے بیٹے پر (دعوت و تبلیغ کے لیے) اپنے آپ کو پیش کیا۔

دعوت توحید دینے کی پاداش میں آپؐ پر گندگی پھینکی جاتی اور آپؐ کو (نعوذباﷲ) مجنون، دیوانہ اور جادوگر تک کہا گیا۔ آپؐ پر ایمان لانے کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ شعب ابی طالب میں آپؐ اور آپؐ کے جاں نثاروں کو تین سال تک محصور کر دیا جاتا ہے۔ آپؐ کے ساتھ اس قید میں ام المومنین حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سمیت عورتیں بچے اور بوڑھے تک تھے۔

آپؐ کا مکمل مقاطعہ کر دیا جاتا ہے، کھانے پینے کی کوئی چیز بھی آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں تک نہیں پہنچنے دی جاتی تھی تاکہ یہ بھوک و پیاس سے تنگ آ کر حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔ ان مشکل ترین حالات میں بھی آپ ﷺ کے جاں نثاروں نے فدا کاری کی اعلیٰ اور بے نظیر مثال قائم کرتے ہوئے درختوں کے پتے چپا کر اور خشک چمڑے کو پانی میں بھگو کر نگل لیا لیکن حضورؐ کا ساتھ اور ایمان کو نہیں چھوڑا۔ آپؐ کو احد کے میدان میں زخمی کیا گیا، آپؐ کے دندان مبارک شہید کیے گئے، آپؐ پر ایمان لانے کی پاداش میں حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ اور یاسرؓ و عمارؓ سمیت دیگر صحابہ کرامؓ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

کفار ان کو گرم ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتے لیکن اس سب کے باوجود رحمتہ للعالمینؐ نے کبھی ان ظالموں کی لیے بد دعا نہیں کی، بل کہ ہدایت کی لیے ہی دعا فرمائی۔ ان حالات میں بھی محسن انسانیتؐ نے اپنے مشن کو زندہ اور جاری رکھا۔ مکہ کے لوگوں نے جب ظلم و تشدد کی انتہا کر دی تو آپؐ خدا تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔

مدینہ میں انصار نے حضور ﷺ اور ہجرت کر کے آنے والے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اخوت و محبت کا وہ بے مثال مظاہرہ کیا کہ تاریخ انسانی اس کی نظیر و مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اور پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب رحمتہ للعالمین ﷺ اپنے دس ہزار جاں نثار صحابہ کرامؓ کے لشکر کے ہم راہ اسی مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں، جہاں سے آپؐ اور صحابہ کرام ؓ کو دس سال قبل ظلم و تشدد کر کے نکالا جاتا ہے۔ جہاں حضورؐ کے سر مبارک کی قیمت سو سرخ اونٹ مقرر کی گئی تھی، لیکن یہ کیسا فاتح ہے اور کیسا انقلاب ہے کہ نہ تو قتل عام کیا جا رہا ہے اور نہ ہی فتح کا جشن منایا جا رہا ہے۔ آج انتقام و فتح کا نشہ اور تکبّر و غرور نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔

رحمتہ للعالمینؐ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے عاجزی و انکساری کے ساتھ سواری پر اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ آپؐ کا چہرۂ انور سواری کی پشت کے ساتھ ملا ہوا نظر آتا ہے۔ مکہ سے نکالنے والے خوف زدہ ہیں کہ حضورؐ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور انتقام کا کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے، وہ بھی تھے جو آپؐ کے خون کے پیاسے تھے، وہ بھی تھے جنھوں نے پتھر مار مار کر آپؐ کے جسم اطہر کو لہولہان کیا تھا، وہ بھی تھے کہ جنھوں نے آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ پر ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے تپتی ریت پر لٹا کر ان کے سینوں پر وزنی پتھر رکھے تھے۔ ان صحابہ کرامؓ کو دھکتے ہوئے کوئلوں پر لٹایا گیا اور ان کے جسموں کو گرم سلاخوں کے ساتھ داغا گیا تھا۔

ان میں وہ بھی تھے جنھوں نے رحمتہ للعالمین ﷺ اور آپؐ کے فداکاروں کو شعب ابی طالب میں درختوں کی کھال اور پتے چپانے پر مجبور کر دیا تھا۔ آج یہ سب بارگاہ رسالتؐ میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں، رحمتہ للعالمینؐ نے ان سب پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا کہ جانتے ہو آج میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ بے بسی اور ندامت کے عالم میں ہر طرف سے ایک ہی رحم طلب صدا گونجی کہ آپ ﷺ عالی ظرف اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔ رحمتہ للعالمین ﷺ نے سب کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے جاؤ تم سب آزاد ہو۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور حضور ﷺ کی سیرت و صورت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔