پروفیسر شریف المجاہد ۔ تاریخ کا روشن باب

ایڈیٹوریل  بدھ 29 جنوری 2020
انھیں اپنی ذات کے اندر ایک ادارہ اور دبستان بلاشبہ کہا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

انھیں اپنی ذات کے اندر ایک ادارہ اور دبستان بلاشبہ کہا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

نامور ماہر تعلیم، مورخ اور تحریک پاکستان پر متعددکتابوں کے مصنف پروفیسرشریف المجاہد، علم وادب کا ایسا بہتا دریا، جس نے تمام زمانے کو سیراب کیا، آج ہم میں نہیں۔ تین نسلوں کی فکری تربیت اور ان میں علم وآگہی کی شمع روشن کرنے والے پروفیسر شریف المجاہد کی خدمات ہماری تاریخ کا روشن ترین باب ہیں۔ ان کے علمی وفنی کمالات اور محاسن اتنے زیادہ ہیں کہ انھیں اپنی ذات کے اندر ایک ادارہ اور دبستان بلاشبہ کہا جاسکتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کے مختلف روزناموں اور ہفت روزہ جرائد کے عملہ ادارت میں شامل رہے۔ کراچی میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے نمایندے رہے۔ بعد ازاں مانٹریال اسٹار اور دیگر کئی پاکستانی وغیرہ ملکی اخبارات و جرائد کے نمایندے کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 16اگست 1955 میں بحیثیت لیکچرار جامعہ کراچی سے وابستہ ہوئے اور اس کے شعبہ صحافت کو از ابتدا منظم کیا اور بانی شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کہلوائے۔

1949 میں مدراس یونیورسٹی سے بی آنرزکیا ،1951میں ایم اے اسلامک ہسٹری اور 1952میں اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی امریکا سے ایم اے جرنلزم جب کہ 1954میں میک گِل یونیورسٹی کینیڈا سے ایم اے اسلامک اسٹڈیزکی ڈگری حاصل کی۔

عملی صحافت کا آغاز 1945 میں تحریک پاکستان اور مسلمانوں کی سیاسی بیداری کے موضوع پر مضامین لکھنے سے کیا۔ براڈر سے یونیورسٹی اور بفلیوکی اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک میں بحیثیت ’’وزیٹنگ ایشین پروفیسر‘‘ جنوبی ایشیا کے موضوع پر لیکچر دیے۔ 1976میں وفاقی وزارت تعلیم نے ’’قائداعظم اکیڈمی‘‘ کا بانی ڈائریکٹر مقرر کیا۔

ان کی تصانیف میں ’’قائداعظم، ایک موضوعاتی مطالعہ‘‘ کو 1981میں قائداعظم پر شایع ہونے والی کتب میں بہترین قرار دیتے ہوئے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ ایک کتاب’’انڈین سیکولرازم‘‘ کا عربی ترجمہ شایع ہوا۔ آپ کے بعض مقالات عربی، فرانسیسی، ملادکی، پرتگیزی اور ہسپانوی زبانوں میں ترجمہ ہوئے، بین الاقوامی کانفرنسوں اور علاقائی سیمیناروںمیں ان گنت مقالات پیش کیے۔  ان کا اس دار فانی سے کوچ کرجانا اہل علم وادب کے لیے نقصان عظیم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔