اردو افسانے کا سفر (1)

زاہدہ حنا  بدھ 9 دسمبر 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

وقت کی پلک نہیں جھپکتی کہ 100برس یا ایک صدی یوں گزر جاتی ہے جیسے گزری ہی نہ ہو۔ آرٹس کونسل کے کار گزاروں نے مجھ سے کہا کہ میں جدید اردو افسانے اور عصری حسیت پر ڈھائی تین منٹ بات کر لوں۔ طلسم ہوشربا میں نے ذوق شوق سے پڑھی ہے لیکن میں نہ صر صر جادو نہ ملکہ سحر افگن کہ کوئی جادو دکھا دوں، سو میں ڈھائی تین منٹ کا معاملہ طاق میں رکھتی ہوں اور اپنی بات نہایت اختصار سے کہنے کی کوشش کرتی ہوں۔

اردو افسانے میں عصری حسیت کی بات کی جائے مجھے اجازت دیجیے کہ دہشتگردی، سیاست، مزاحمت، نفرت اور کذب و ریا کے معاملات پر ایک سرسری نظر ڈالوں۔ افسانے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مغرب سے دساور آیا ہے۔ میرے خیال میں یہ ہمارے لکھنے والوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔

ہم کیسے بھول جائیں کہ طلسم ہوشربا کی داستانوں کے ٹکڑے اور الف لیلہ کے قصے ہمارے لاشعور میں تھے اور ان ہی سے ہمارا افسانہ وجود میں آیا۔ ایک طرف وہ شہزادی ہے جو رات  بھر کے لیے پناہ کے طلب گار کسی مسافر کی وجاہت پر فدا ہو جاتی ہے لیکن حسب نسب سے آگاہ ہوئے بغیر اس کی طرف دستِ طلب کیسے بڑھائے؟ کنیزوں کو حکم ہوتا ہے کہ اس کا بستر چالیس توشکوں پر مشتمل ہو اور سب سے نیچے چنے کا ایک دانہ رکھ دیا جائے۔ صبح اٹھ کر مسافر جب پشت میں کسی کنکر کے چبھنے کی شکایت کرتا ہے تو پناہ دینے والی شہزادی کو اس کی عالی نسبی پر یقین آتا ہے۔ اسی طرح الف لیلیٰ کی وہ مچھلیاں ہیں جو تلی جاری ہیں اور اٹھ اٹھ کر باتیں کرتی ہیں۔

افسانے کے ناخن سے زندگی کی پرتوں کو کھولنا اور سماج سے محروم اور معتوب کرداروں کو سامنے لانے کا فریضہ سو سوا سو صدی سے اردو ادب میں انجام دیا جا رہا ہے۔ یہ کام راشد الخیری، پریم چند، عباسی بیگم، سجاد حیدر یلدرم سے نجم الحسن رضوی اور ان سے پہلے اور ان کے بعد آنے والوں تک سب ہی نے کیا ہے۔

کوئی مصر کے بازار سے محنت کرنے والے ننھے ہاتھوں کو لے آیا ہے اور کسی کے کرداروں نے شام کے دھندلکے میں شطرنج کی بساط پر اپنے اپنے وزیروں کے لیے جان دے دی ہے اور ان کے بادشاہ کی بے نور آنکھیں انھیں دیکھ رہی ہیں۔ جب کہ سڑک پر سے ان کے معزول اور مقید بادشاہ کی سواری گزررہی ہے ۔ ایک ایسے سماج کا قصہ جس میں میدان کار زار میں ساتھ دینے کے لیے حضرت محل جیسا حوصلہ درکار ہوتا ہے اور شطرنج کی بساط پر کھلینا اور جان دے دینا، بانکوں کے اس سماج کی ایک ادا ہے۔

ایک ایسے زمانے میں جب مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا ادب ریاستی اور مذہبی جبر کی ایڑیوں کے نیچے کچلا جارہا ہے، جب ہمارے ادیب پر رزق کی مار پڑ رہی ہے۔ وہ ایک طرف اپنے گھر کی بھوک سے لڑرہا ہے اور دوسری جانب اسے ان لوگوں کے سوالوں کا سامنا ہے جو اسے اور اس کی تحریروں کو چاہتے ہیں اور ان کے فن سے حوصلے کے طلب گار ہیں۔ لکھنے والے کو ہر اس آئینے میں اپنا چہرہ نظر آتا ہے جو ضمیر کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔

ادیب کہاں جائے اور کس دریا کی لہروں سے لپٹ کر سوئے ملک جائے۔ ایسے میں قرۃ العین حیدر ، خالدہ حسین، سدرشن، علی عباس حسینی، حیات اللہ انصاری اور دوسرے بہت سے یاد آتے ہیں جنھوں نے اردو افسانے کو متنوع اور جدیدموضوعات سے مالا مال کیا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘ میں ہمیں دکھایا ہے کہ کالا پانی میں سزائیں کاٹنے والے اور ان کے اولادیں کس طرح کایا پلٹ اور کایا کلب سے گزرتی ہیں۔ ہمارے سماج میں روشن خیالی اور تنگ نظری کی طرف جو واپسی ہوئی ہے اس کی اعلیٰ تصویر ہمیں خالد حسین کے افسانے ’’دادی چھٹی پر ہیں‘‘ میں نظر آتی ہے۔

الطاف فاطمہ اور منشا یاد نے دہشتگردی کے کیسے کیسے نورانی چہرے ہمیں دکھائے ہیں۔ اس بارے میں ساجد رشید کی کہانی ’ایک مردہ سر کی حکایت‘ ناقابل فراموش ہے۔ ہمارا عصر دہشتگردی اور لایعنیت کا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جس سے انسان نکلے تو کیسے۔ اسی  طرح ساجد رشید کی کہانی ’موت کے لیے ایک اپیل‘ ہم سب کے سامنے بہت سے سوال رکھ دیتی ہے۔ یہ سوال ہمارے یہاں ہزاروں ان انسانوں کی کیفیات کو زبان دیتے ہیں جو اپنی زندگی گزار چکے اور اب بے معنی شب و روز سے گزر رہے ہیں۔ وہ اپنی اس اولاد پر بوجھ ہوچکے ہیں جنھیں انھوں نے پھولوں کی طرح رکھا تھا۔ تو پھر وہ ہائی کورٹ کے جج سے مرنے کی اجازت کیوں نہ چاہیں۔

عورتوں کے غم ان کے محرومیاں اور ان پر گزرنے والے ستم ہمیں عصمت چغتائی’ ننھی کی نانی‘ اور ’مٹھی مالش‘ میں دکھاتی ہیں۔ واجدہ تبسم پر فحاشی کا الزام لیکن ان کی کہانیاں پڑھ جائیے اور پھر سوچیے کہ انھوں نے اپنے قلم سے جس نوابی ظلم کا نقشہ کھینچا ہے وہ کتنا غلط اور کتنا درست ہے۔ ان کی کہانیاں ’’اترن‘‘ اور ’’چاندنی‘‘ اگر ہمیں حویلیوں کے اسرار سے آگاہ کرتی ہیں تو بالا خانوں کی کتنی ہی جھلکیاں ہمیں نظر آتی ہیں۔

لڑکے پیدا نہ کرنے پر صرف مسلمان عورت پر ہی ستم نہیں گزرتا، کروڑ پتی خاندان میں بیاہ کر جانے والی ہندو لڑکی بھی اسی عذاب سے دو چار ہوکر خود کشی کر لیتی ہے۔ ’پارسا بی بی کا بگھار‘ ذکیہ مشہدی کی ایسی ہی ایک کہانی ہے جو پڑھنے والے کو پتھر کا کر دیتی ہے۔ الطاف فاطمہ، رضیہ فصیح احمد،  نیلم احمد بشیر، جمیلہ ہاشمی، ممتاز شیریں، ہاجرہ مسرور کیسی کیسی باکمال لکھنے والیاں ہیں جنھوں نے باپردہ عورتوں کی محرومیوں کے قصے لکھے اور جب اپنے جغرافیے سے باہر نکلیں تو زندگی کے بخیے ادھیڑتی گئیں۔

اردو افسانہ سادہ و معصوم معاملات کے بیان سے شروع ہوا تھا لیکن چند دہائیوں کے اندر ہی اس نے زقندیں لگائیں۔ وہ مارا ماری جو جلیانوالہ باغ کے قتل عام، دو عظیم جنگوں اور قحط بنگال نے اس کے ساکن سماج کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا تھا۔ وہ سیاست جس سے ہندوستان کے مسلم سماج کو واسطہ نہیں پڑا تھا، اسی نے لکھنے والوں کو عصری حسیت سے یوں دو چار کیا جس کا انھوں نے اس سے پہلے تصور نہیں کیا تھا۔ وہ ابھی لال قلعے میں مغل اقتدار کے زمین بوس ہو جانے کا غم منا رہے تھے کہ ان کے سامنے اس سیاست کا میدان کار زار آگیا جس میں وہ خود کو حاشیوں پر دیکھ رہے تھے۔

مسلمان تعلقہ داروں اور زمینداروں نے اپنے حق کے لیے بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں مسلم لیگ بنائی لیکن مسلمان کسان اور نچلے طبقے کے حقوق کے لیے کون آواز اٹھاتا۔ ان ہی معاملات سے جھوجھتے ہوئے اردو کا افسانہ نگار بھی زمانے کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے پڑھنے والے کے دل کی تسلی کیوں کر کرے اور قلم کا حق کس طرح ادا کرے کہ 1935میں سجاد ظہیر لندن سے لوٹ آئے گا ڈاکٹر رشید جہاں نے عورتوں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے ادب کی طرف نگاہ کی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کا ڈول ڈال دیا۔

1917 میں انقلاب روس نے بہت سے ملکوں کی قسمت بدل دی تھی، ہندوستانی نوجوان  جو برطانوی راج کے خلاف نئے انداز میں اٹھنے کے لیے بے تاب تھے، انھوں نے ادب کی انگلی تھامی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف اپنا قبلہ راست کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں انگریز راج ہندوستانیوں  کے اخلاق درست کرتے ہوئے ایک طرف ’مثنوی زہر عشق‘ کو ممنوع قرار دے رہا تھا تو دوسری طرف وہ افسانوی مجموعہ ضبط کیا جارہا تھا جس کا نام ’’انگارے‘‘ تھا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔