دہقانوں کے نام

جاوید قاضی  اتوار 31 جنوری 2021
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بلی ماراں میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کا گھر تھا،ایک وہ دلی تھا ،جس کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھے۔ جہاں ان کے دو بیٹے دارکی خشک ٹہنی پہ وارے گئے اور وہ جلا وطن ہوئے۔

رنج اس بات کا رہا کہ دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ وہ بھی دلی تھا جہاں دارہ شکوہ تھے اور وہ بھی دلی تھا جہاں سرمد الہلاج تھے۔اسی لال قلعے کے گردونواح میں جامع مسجد کی دہلیز پر ایک مجذوب بیٹھتا تھا اور پھر وہ بھی ایک دن تخت دار پر پایا گیا، وجہ یہ تھی کہ یہ مجذوب بلند بانگ کہتا تھا کہ ’’اگر بادشاہ دارالشکوہ ہے‘‘

کتنے نشیب و فراز دیکھے اس دلی نے، پانی پت کے میدانوں میں کتنے میداں مارے گئے۔ ترک، غوری اور مغل سب اترے دلی کی سرزمیں پر وقتا فوقتا۔ لگ بھگ ہزار سال کی داستاں ہے، ان حکمرانوں کے عروج و زوال کی۔

ماضی قریب میں دِلی کو فتح کرنے کے لیے نادر شاہ آیا۔ اس وقت دلی کے تخت پر محمد شاہ رنگیلا بیٹھا تھا۔ محمد شاہ رنگیلا نے سمجھا کہ نادر شاہ کاآنا بھی اسی پانی پت کی جنگوں کا تسلسل ہے۔ محمد شاہ رنگیلا نے دلی کی چابی نادر شاہ کو تھمائی، ایک مغل شہزادی سے شادی بھی کروائی اور خود اس کی رعایا بن گئے۔ نادر شاہ۔اس کا مقصد صرف دِلی کی دولت حاصل کرنا تھا، کوہِ نور ہیرے سے لے کر وہ تمام خزینے جو دلی کی معراج تھے، واپس چلا گیا۔

نادر شاہ سن1738 میں دلی آئے اور ہزاروں کی تعداد میں صندوقیں ، لائبریریاں ، نادرکتابیں ، صحیفے،کوہِ نور اور تمام خزانے لوٹ کر دلی سے چلتے بنے۔ نادر شاہ تو چلا گیا لیکن دِلی پھر کبھی ایسا آباد نہ ہو سکا جیسے نادر شاہ کے آنے سے پہلے تھا۔نادر شاہ کے دِلی میں آنے کی راہ اورنگزیب بادشاہ نے ہموار کی۔ اورنگزیب ، جس نے ہندوستان کی حکومت پانے کے لیے اپنے باپ اور پانچویں مغل بادشاہ، شاہ جہاں کو پابندِ سلاسل کیا، اپنے بھائی داراشکوہ کو قتل کروایا

اب1947کی آزادی کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دہلی R.S.S کی نظر چڑھا ، پرناب مکرجی جیسے اینکروں کے جو پہلے سے ہی یہ جانتے تھے کہ پلوامہ میں حملہ ہونے جا رہا ہے۔اپنے دورِ حکومت میں مودی نے نفرتوں کے وہ بیج بوئے کہ اب وہ نفرتیں وہاں کے عوام کاٹ رہی ہے۔ مودی نے ہندو انتہا پرستی کو بے پناہ فروغ دیا ہے، جس کا اثر نہ صرف عام عوام بلکہ اداروں جیسا کہ بالی وڈ انڈسٹری پر بھی پڑا۔

مودی کی  R.S.S نے بالی وڈ کے نامور اداکاروں کے نام ایک آرٹسٹ کی خودکشی کے کیس انویسٹی گیشن کمیشن کو دے دیا۔ مودی نے ہندوستان میں کورونا پھیلنے اور پھیلانے کا الزام بھی مسلمانوں پر تھوپ دیا۔لاکھوں مزدور جو دور افتادہ علاقوں سے شہروں میں مزدوری کرنے آئے تھے ان کو بے روزگار کردیا۔ مودی نے کشمیر میں بھی آہنی ہاتھوں کا استعمال کیا ہاں مگر جب چین نے اس کا فائدہ اٹھانا چاہا تو مودی صاحب میدان چھوڑکر بھاگ نکلے بالکل محمد علی شاہ رنگیلا کی طرح۔

اپنے دور میں اندرا گاندھی نے بھی کچھ اسی طرح کی طبع آزمائی کی تھی دلی پر، دوتہائی اکثریت کے گھمنڈ میں جو ان کومشرقی پاکستان کو فتح کرنے کے صلے میں نوازی گئی تھی۔ اندرا گاندھی صاحبہ نے اپنے اختیارات کو بے دریغ استعمال کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کردی مگر اس وقت ہندوستان کی سپریم کورٹ اندرا گاندھی کے اس فیصلے کے خلاف ڈٹ کے کھڑی ہوگئی اور ان کے اس گھمنڈ کو کیشوانندہ کیس نے توڑ ڈالا۔اس کیس نے اندرا گاندھی صاحبہ کو یہ باور کروایا کہ وہ بے شک دو تہائی اکثریت کی مالک ہیں مگر وہ ملک کے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کی اہل نہیں۔اندرا گاندھی صاحبہ نے پنجاب میں اٹھتی آزادی کی تحریک کو آہنی ہاتھوں سے کچلنا چاہا مگر وہ خود اپنے ہی ایک سکھ گارڈ کے ہاتھوں ہلاک ہوئیں۔

آج دلی کی سلطنت پر ویسے ہی دوتہائی اکثریت حاصل کرنے والے کی حکومت ہے۔ فرق صرف اتناہے کہ سیکولرزم ا ندرا گاندھی کا ہتھیار تھا، ہندوستان کے آئین کوکمزور اور عدالتوں کو مفلوج کرنے کے لیے اور مودی کے مقاصد یعنی ہندوستان میں مذہبی انتہا پرستی کو پھیلانے میں سیکولرازم اس کا حریف ہے،جب سارا ہندوستان مودی کے آہنی ھاتھوں کے آگے جھک گیا ، ہندوستان کی عدالتوں نے بھی اپنے گھٹنے ٹیک دیے ، جب سب کچھ ماند پڑنے لگا تو دہلی کے مسلمانوں کو یہ احساس ہوا کہ جیسے ہندو اس ملک کے آزاد شہری ہیں ویسے مسلمان اس ملک کے آزاد شہری نہیںہیں۔

بڑے ہی حیران کن انداز میں اس دفعہ ہندوستان کے دہقانوں نے دلی کے لال قلعے پر اپنے جھنڈے گاڑ دیے جب مودی نے ان کی فصلوں کے بھائو مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے۔ مودی نے مارکیٹ کے مڈل مین کا کردار بڑھا دیا اور جو قانون تھا کہ کاشتکاروں کی پیدا کی ہوئی اجناس کی کم سے کم قیمتیں حکومت طے کرتی تھی اس حد تک حکومت مداخلت کرے گی، اس قانون کو ختم کردیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں مودی سرمایہ داروں کا پسندیدہ ترین وزیرِاعظم ہے۔

برِ صغیر میں دہقانوں اور کسانوں کی سب سے بڑی تحریک کا آغاز 1718 میں سندھ سے ہوا تھا۔ یہ تحریک شاہ عنایت صوفی کی تحریک تھی۔انھوں نے اپنی فصلوں پر دلی کو ٹیکس دینے سے انکار کردیا تھا۔دلی راج نے اپنی فوج جھوک شریف ٹھٹہ کی طرف روانہ کی۔جھوک شریف میں شہدا کی قبریں صوبہ سندھ میں اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں جتنی کہ گڑھی خدا بخش کی قبریں۔ پاکستان میں ایسی ہی دہقانوں کی تحریکوں کی بنیادیں سندھ سے پڑی ہیں جن کے اہم لیڈر کامریڈ حیدر بخش جتوئی ،میرے والد قاضی فیض محمد اور کامریڈ غلام محمد لغاری ہیں۔

جب دلی کا ذکر نکلا ہے تو جاتے جاتے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ علی گڑھ میں کچھ جذباتی طلباء نے مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ بد کلامی کی ،ان طلباء کا تعلق خاکسار تحریک سے تھا ۔ ان طلباء میں شامل میرے والد بھی تھے۔ اس واقعے کا ذکر نبی بخش بلوچ نے بھی کیا تھا اور اس کا ذکرکلدیپ نئیر نے اپنی سوانح حیات میں بھی کیا ہے۔اس بات کی چبھن میرے والد کو ہمیشہ رہی اور یہ واقعہ میرے والد کے ضمیر پر ایک بوجھ کی طرح رہا۔

وہ اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ جلاوطن ہوتے ہوئے جب بھٹو نے ان کو جہاز سے ا تارا تھا توکوئی راستہ نہ تھا اور میلوں پیدل سفر طے کرکے انھوں نے بارڈرکراس کیا۔ پھرکچھ دن انھوں نے دلی میں گزارے۔ لندن جانے سے پہلے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ میں ابو الکلام آزاد کی قبر پر ندامت کے ساتھ چپ چاپ کھڑا رہا، اس اعتراف کے ساتھ کہ وہ میری غلطی تھی اورکہیں میرے یہ قدم اس رنجش کوکم کر سکیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔