کورونا تیسری عالمی جنگ، مقامی ویکسین کی تیاری کے قابل ہو چکے، ایکسپریس فورم

اجمل ستار ملک  جمعـء 2 اپريل 2021
کورونا صورتحال پر ایکسپریس فورم میں ڈاکٹر جاوید اکرم، عمر اشرف مغل اظہار خیال کر رہے ہیں

کورونا صورتحال پر ایکسپریس فورم میں ڈاکٹر جاوید اکرم، عمر اشرف مغل اظہار خیال کر رہے ہیں

 لاہور: مقامی طور پر کورونا ویکسین کی تیاری کے قابل ہو چکے ہیں تاہم بائیو ٹیکنالوجی انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے تیاری ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے 70 برسوں میں ایک بھی بائیو ٹیکنالوجی پلانٹ نہیں لگایا جا سکا، کورونا دراصل تیسری عالمی جنگ ہے کیونکہ اس سے اب تک 35 لاکھ اموات ہوچکی ہیں جو کسی عالمی جنگ میں نہیں ہوئی، آئندہ برسوں میں بھی بیکٹیریا اور وائرس سے لاکھوں اموات ہونے کا خدشہ ہے۔

لہٰذا اب ممالک، اداروں اور بزنس چیمبرز کو اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا، ہتھیار بنانے کے بجائے شعبہ صحت پر زیادہ خرچ کرنا ہوگا، کورونا کا حل ویکسین اور احتیاط ہے، جب تک ساڑھے 15 کروڑ پاکستانیوں کو ویکسین نہیں لگائی جاتی تب تک اس کے پھیلنے کا خطرہ رہے گا لہٰذا ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہوگا، شعبہ صحت دنیا میں سب سے زیادہ پیسہ کمانے والا شعبہ ہے جسے اکیڈیمیا انڈسٹری شراکت سے مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے پاس 29 ادویات کے عالمی منظور شدہ پیٹنٹ موجود ہیں جو انڈسٹری کو کمرشل بنیادوں پر تیاری کیلیے مفت دینے کو تیار ہیں۔ کورونا کی وجہ سے جہاں انڈسٹری کو نقصان ہوا وہیں نئے مواقع بھی ملے، سمارٹ لاک ڈاؤن میں ہماری انڈسٹری چلتی رہی جس سے دنیا کا رجحان ہماری طرف ہوگیا، برآمدات بڑھی اور مقامی صنعت کو بھی فروغ ملا، بزنس کمیونٹی تعلیمی اداروں کی تحقیق پر کمرشل بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنے کیلیے تیار ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماہر صحت اور بزنس کمیونٹی کے نمائندے نے ’’کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔ وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا ممالک اور اداروں کو اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔

میڈیکل سٹی بنایاجائے۔ افسوس 1947 ء سے ملک میں ایک بھی بائیوٹیکنالوجی پلانٹ نہیں لگایا جا سکا، بھارت کی ایک فیکٹری روزانہ 35 لاکھ کورونا ویکسین ڈوز تیار کر رہی ہے،کورونا وائرس اپنے پہلے دن سے لے کر اب تک کسی بھی ملک سے مکمل طور پر ختم نہیں ہوا لہٰذا تیسری لہر والی بات میرے نزدیک غلط ہے، اس کے بڑھنے کی 2 سائنسی وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ اس نے اپنی ساکھ کو تیزی دے بدلا ہے اور دوسری یہ کہ اس وائرس پر موجود کانٹوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔

اب بھی ایک چینی ویکسین کا ٹرائل جاری ہے، یہ کمپنی پاکستان میں انڈسٹری لانے کیلئے تیار ہے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔ حکومت ویکسین امپورٹ کر کے فرنٹ لائن ورکرز اور 50 برس سے زائد عمر کے لوگوں کو لگا رہی ہے مگر تمام لوگوں کو ویکسین لگانا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عمر اشرف مغل نے کہا گزشتہ لاک ڈاؤن میں بزنس انڈسٹری پریشان ہوگئی، بے شمار کاروبار متاثر ہوئے مگر اس میں بہت ساری انڈسٹری کو فائدہ بھی ہوا، جہاں دنیا بھر کی انڈسٹری بند ہوگئی وہیں سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان کی انڈسٹری چلتی رہی، یہی وجہ ہے کہ دنیا کا رجحان ہماری طرف ہوا، انہوں نے کہا ہمیں تنقید سے نکل کر تعمیر کی طرف جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں میں کرونا مریضوں کے لیے بہترین سہولیات ہیں، ہمارے لوگ قابل اور ذہین ہیں، یہاں ماسک، سینی ٹائزرز، پی پی ای کٹس، وینٹی لیٹرز بنائے گئے، انہوں نے کہا کہ کورونا خطرناک ہے، کاروباری طبقے کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔