پونچھ ہاؤس

تاریخی اہمیت کی حامل دل کش عمارت ۔  فوٹو : فائل

تاریخی اہمیت کی حامل دل کش عمارت ۔ فوٹو : فائل

چوبرجی کے پاس ملتان روڈ پر درختوں اور سبزے کے بیچ میں ایک خوب صورت اور پرانے طرز کی سفید عمارت چھپی ہوئی ہے، اس عمارت کو پونچھ ہاؤس کہتے ہیں اور اس علاقے کا نام بھی پونچھ ہاؤس کالونی ہے۔

پونچھ، ریاست جموں و کشمیر کے ایک علاقے کا نام ہے، جس سے یہ عمارت منسوب ہے۔ آج یہ علاقہ پاکستانی آزاد کشمیر و بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تقسیم ہے۔

پاکستانی کشمیر میں موجود پونچھ ایک ڈویژن ہے جس میں باغ، سدھنوتی، حویلی اور پونچھ کے اضلاع شامل ہیں۔ راولاکوٹ یہاں کا بڑا شہر ہے، جب کہ بھارتی پونچھ لائن آف کنٹرول کے ساتھ واقع ایک ضلع ہے جس کا صدر مقام پونچھ شہر ہے۔

پونچھ ہاؤس نامی یہ عمارت مہاراجا دلیپ سنگھ کے عہد میں لارڈ لارنس کی رہائش کے لیے 1849 میں تعمیر کی گئی تھی۔ جب وہ سکھ فوج کی گو شمالی کے لیے لاہور میں مقیم تھا۔

اس عمارت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 5 مئی 1931 کو بھگت سنگھ کا ٹرائل اسی عمارت میں ہوا تھا جو ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کے اہم کردار تھے۔

23 مارچ 2013 میں عمارت کے باہر لگی سنگِ مرمر کی تختی کے مطابق؛

ریونیو ریکارڈ کے مطابق یہ زمین ”راجہ جگت سنگھ” کی ملکیت تھی۔ 1962 میں گورنمنٹ نوٹیفیکیشن پر یہ عمارت فیڈرل گورنمنٹ کو دے دی گئی۔

بعدازاں یہ بنگلہ چیف کورٹ کے بیرسٹر ”چارلس بولنوائس” کے قبضے میں رہا، جس کے بعد یہ چیف جج سر ”میڈتھ پلوڈن” کے زیرِتصرف رہا۔

قیامِ پاکستان کے بعد پونچھ ہاؤس میں انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر منتقل کردیے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کے دفاتر جیسے محکمہ جنگلات، معدنیات، محکمہ باہمی امداد اور پنجاب ہیلتھ فاؤنڈیشن بھی یہاں منتقل ہوگئے۔

اس عمارت کے احاطے میں 1950 کے دور میں انڈسٹریل اینڈ کمرشل میوزیم بنایا گیا جو 1985 میں ختم کردیا گیا اور اسی جگہ پر ڈائریکٹوریٹ آف انڈسٹریز کی لائبریری منتقل کردی گئی۔

یہاں ڈائریکٹر انڈسٹریز رہنے والے مشہور لوگوں میں قدرت اللہ شہاب اور ایچ آر پاشا جیسے لوگ شامل ہیں۔

بڑے بڑے برآمدوں، اونچی چھتوں، وسیع دالانوں، موٹے ستونوں اور اپنے خوب صورت ڈھانچے کے باعث یہ عمارت دیکھنے میں بہت پُرکشش لگتی ہے۔

دو منزلہ اس عمارت کے چار کونوں پر ایک تین منزلہ چوکور ٹاور یا بُرج واقع ہیں جس کے سامنے کی طرف تکونی محراب والی سبز کھڑکیاں موجود ہیں جو عمارت کو اور دل کش بناتی ہیں۔

برآمدوں کے ساتھ لگے ستون دو دو کی جوڑی میں بنائے گئے ہیں جن کے درمیان کچھ جگہ خالی ہے۔ چھت اور لکڑی کے بڑے بڑے دروازے پرانے طرز کے ہیں۔

اس عمارت کو دیکھ کہ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کسی برطانوی طرز کے ڈاک بنگلے یا پرانے ریلوے اسٹیشن کی عمارت کی بہن رہی ہو۔

اسی عمارت کی غربی سمت میں ایک اور عمارت واقع ہے۔ ایک چھجا نما اوپری راستہ ان دو عمارتوں کو باہم ملاتا ہے جس کی پرانی طرز پر بنی ٹوٹی پھوٹی کھڑکیاں اب بھی باقی ہیں۔

راستے کے دوسری جانب عمارت قدرے نئی شکل کی ہے اور اچھی حالت میں ہے۔ لیکن اس کے پچھلے حصے کو دیکھیں تو اس کا بھید کھل جاتا ہے۔ یہ بھی اوپر بیان کی گئی عمارت کی طرح پرانی طرز پر بنی ہے لیکن اس کے چہرے کو مرمت اور پینٹ کر کے نیا روپ دے دیا گیا ہے۔ یہ محکمہ جنگلات، جنگلی حیات و فشریز کا دفتر ہے جس کے ستون، بل کھاتی سیڑھیاں اور پرانے ماربل کا فرش چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میرا موجودہ زمانے سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کی دوسری جانب پنجاب ہیلتھ فاؤندیشن کی عمارت واقع ہے جو ہر سرکاری عمارت کی طرح سرخ رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ پونچھ ہاؤس کی عمارت کے پیچھے ایک اور نئی عمارت بنائی گئی ہے جو محکمہ کان کنی و معدنیات کا دفتر ہے۔ یہ پونچھ ہاؤس کے طرز پر بھدے طریقے سے بنائی گئی ہے آپ اسے اسکی دو نمبر کاپی کہہ سکتے ہیں۔

اس کمپلیکس میں ایک مسجد اور پنجاب کو آپریٹو سوسائٹیز کے رجسٹرار کا آفس بھی واقع ہے۔ یہاں کے لان وسیع اور خوبصورتی سے کیے ہوئے ہیں۔ اتوار کا دن ہونے کے باعث میں اندر تو نہ جا سکا لیکن باہر سے بھی یہ جگہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔