- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
سینے کی آوازوں سے نومولود بچوں میں مرض شناخت کرنے والا ڈجیٹل اسٹیتھو اسکوپ
پرتھ: ٓسٹریلیا کے سائنسدانوں نے ایک ڈجیٹل اسٹیتھواسکوپ اور سافٹ ویئر بنایا ہے جو نومولود بچے کے سینے کی آوازیں سن کر ان میں ممکنہ امراض کی پیشگوئی کرسکتا ہے۔
غریب اور دوردراز علاقوں میں اس ایجاد سے کئی بچوں کی جان بچائی جاسکتی ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ سے چھوٹے بچوں اور نومولود اطفال میں بیماری کا بڑی حد تک درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آئی ای ای ای ایکسپلور ڈجیٹل لائبریری میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ ایک بہت حساس ڈجیٹل اسٹیتھواسکوپ تیار کی ہے جو پھیپھڑوں، سانس اور دل کی آواز کو بہت گہرائی میں ریکارڈ کرتی ہے۔ اس طرح بچوں میں سانس، پھیپھڑوں اور دل کے وابستہ ان گنت امراض کی شناخت ممکن ہوسکتی ہے۔
ہم پہلے ہی یہ جانتے ہیں کہ مختلف بیماریاں ہوں یا انفیکشن ، اس صورتحال میں سینے سے اٹھنے والی آوازیں مختلف ہوتی ہیں۔ ایک ماہر ڈاکٹر اپنے تجربے کی بنیاد پر ان کو محسوس کرکے ممکنہ مرض تک پہنچ جاتا ہے۔
موناش یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر فائزہ مرزبن رعد اور ان کے ساتھیوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس سے غریب ممالک کی آبادی فیضیاب ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر فائزہ کا تعلق ایران سے ہے اور انہوں نے شیراز یونیورسٹی سے برقی انجینیئرنگ میں ماسٹرکیا اور موناش یونیورسٹی سے اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ وہ ایک عرصے سے ڈجیٹل تشخیص کے نت نئے طریقوں پر غور کررہی ہیں۔ تاہم انہوں نے نومولود بچوں کو اپنی تحقیقی کا ہدف بنایا ہے۔
ڈجیٹل طریقے سے سینے اور پھیپھڑے کی آوازیں ریکارڈ کی جاتی ہے۔ اس آواز میں شامل شور اور اطراف کی آوازوں کو ہٹادیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سافٹ ویئربتاتا ہے کہ سینے میں سے سیٹی کی آواز آرہی ہے یا کھڑکھڑاہٹ ہے کیونکہ دونوں کا تعلق دو مختلف کیفیات سے ہوسکتا ہے۔
اس دوران سافٹ ویئر بھی مرض کی کیفیت کا اندازہ لگاتا رہتا ہے۔ والدین گھر بیٹھے بچے کے سینے اور سانس کی آوز ریکارڈ کرکے ڈاکٹر کو بھیج سکتے ہیں اور وہ انہیں سن کر بچے کا علاج یا مزید ٹیسٹ تجویز کرسکتےہیں۔
ڈاکٹر فائزہ نے بتایا کہ والدین ڈجیٹل اسٹیتھو اسکوپ کو بچے کے سینے پر لگا کر آوازیں ریکارڈ کرسکتےہیں۔ اس دوران سافٹ ویئر والدین کی مدد کرتا رہتا ہے کہ آواز ریکارڈ کرنے کے لیے اسٹیتھواسکوپ کو کس مقام پر کتنی مرتبہ رکھنا ہے۔
اپنی ایجاد کی افادیت کے لیے ڈاکٹر فائزہ اور ان کی ٹیم نے موناش چلڈرن ہسپتال کا رخ کیا اور اور 119 بچوں پر آزمائش کی جو پوری مدت یا قبل ازوقت پیدا ہوئے تھے۔ ان آوازوں کو بعد میں سافٹ ویئر سے پروسیس کیا گیا۔
بچوں کے ایک ماہر ڈاکٹر اتول ملہوترا کہتے ہیں کہ بہت چھوٹے اور قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں کے سینے کی آواز محسوس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اول تو اس میں دیگر آوازیں شامل ہوتی ہیں اور دوم یہ بہت مدھم ہوتی ہیں۔ اسی لیے بار بار ان بچوں ک ایکسرے لیے جاتےہیں لیکن اب اس طریقے سے بہت آسانی سے بچوں کی سانس اور پھیپھڑوں کی آواز کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
فی الحال اس نظام کی مزید آزمائش جاری ہے اور اس برس کے وسط تک اسے فروخت کے لیے پیش کردیا جائے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔