اخلاقی زوال

ضیا الرحمٰن ضیا  جمعرات 18 اپريل 2024
برائی تب ختم ہوتی ہے جب اسے برا سمجھا جائے۔ (فوٹو: فائل)

برائی تب ختم ہوتی ہے جب اسے برا سمجھا جائے۔ (فوٹو: فائل)

ہماری قوم انتہائی اخلاقی زوال کا شکار ہے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، گالیاں دینا اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے کو برا سمجھا ہی نہیں جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ برائی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ برائی تب ختم ہوتی ہے جب اسے برا سمجھا جائے اور اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے مگر جس معاشرے میں برائی کو برا نہ سمجھا جائے، جہاں کسی کو اخلاقی پستی کی پروا ہی نہ ہو، اس معاشرے میں اخلاقی پستی مزید بڑھے گی اور اخلاقیات زوال پذیر ہوجائیں گی۔

ہمارے معاشرے میں تو پڑھے لکھے نوجوان اس قسم کی غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہیں تو ناخواندہ افراد سے کیا شکوہ کرنا۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی حرکات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں قوم کا معمار بننا تھا، جنہیں مستقبل میں اس قوم کو سنبھالا دینا ہے مگر یہ کس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ آج قوم کی یہ حالت ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کےلیے کوئی تیار نہیں۔ ہمارے حکمران جو آج غیر اخلاقی حرکات کے مجسم ہیں، وہ بھی اپنی جوانی کے زمانے میں اسی قسم کی اخلاقی پستی کا شکار رہے ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے پر کس قسم کی تنقید کرتے ہیں اور کس قسم کے الزامات لگاتے ہیں اور کتنی اخلاق سے گری ہوئی حرکات کرتے ہیں۔

اگر ہمارے نوجوانوں کا یہی حال رہا تو ہمارا مستقبل بھی بہت زیادہ بھیانک ہونے والا ہے۔ ظاہر ہے جب یہ نوجوان جو آج کل ایسی تربیت حاصل کررہے ہیں کہ کسی دوسرے کی بات کو برداشت نہیں کرنا اور کسی پر تنقید بھی کرنی ہے تو اس کےلیے ایسے الفاظ استعمال کرنے ہیں جن میں تہذیب و اخلاق کا دور دور تک نشان نہ ہو، انتہائی گھٹیا زبان استعمال کرتے ہوئے دوسروں پر تنقید کرنی ہے تو پھر مستقبل میں جب یہ ملک و قوم کے رہنما بنیں گے تو یہ کس قسم کی حرکات میں ملوث ہوں گے۔ یہ ہماری تاریخ کا انتہائی سیاہ پہلو ہے اور ہمارے قومی مستقبل کےلیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

سوشل میڈیا پر جائیں تو اخلاق سے گری ہوئی پوسٹیں نظر آتی ہیں اور ان کے نیچے کمنٹس اس سے بھی زیادہ گھٹیا ہوتے ہیں۔ فحش تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنا ہمارے نوجوانوں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر انتہائی عجیب و غریب قسم کی پوسٹیں لگائی جاتی ہیں اور پھر ان کے نیچے جو کمنٹس کیے جاتے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ ایسی تصاویر یا ویڈیوز کے ویوز، لائیک اور کمنٹس بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان کن چیزوں کو پسند کرتے ہیں اور ان کا رجحان کس طرف ہے۔ نوجوان اپنا بہت زیادہ وقت ان فضول کاموں میں ضائع کرتے ہیں، حالانکہ وہ اس وقت کو کسی تعمیری کام میں بھی صرف کرسکتے ہیں لیکن رہنمائی اور مواقع نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنا وقت اور صلاحیتیں برباد کر رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے کارکن دوسری جماعتوں کے رہنماؤں پر جس قسم کی تنقید اور تبصرہ کرتے ہیں اسے دیکھ کر اور بھی زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی بات کی کس قدر پیروی کی جاتی ہے، سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایسا کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اس ملک کو تباہ کرنے اور یہاں تک پہنچانے میں کس کا ہاتھ ہے۔ اس تباہی میں کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ تمام کی تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کا ہاتھ ہے، جنہوں نے اس ملک پر حکومت کی۔ سب نے ہی ملک کےلیے نہیں بلکہ ذاتی مفادات کےلیے سوچا۔ تمام تر سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کا یہی حال ہے، ہاں چند ایک ہوں گے جو اپنے رہنماؤں کی اندھی تقلید نہیں کرتے اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہیں، مگر ایسے لوگ سوشل میڈیا پر بھی بہت کم ہی فعال ہوتے ہیں۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر فعال ہیں ان کی غالب اکثریت اس قسم کی غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے بڑے جو ہمارے رہنما ہیں، خاص طور پر تعلیمی ادارے، اس بات پر خاص توجہ دیں کہ نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی جائے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے جو ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں صرف اور صرف کتابیں پڑھائی جاتی ہیں بلکہ رٹائی جاتی ہیں، جنہیں نوجوان سمجھ نہیں پاتے اور اخلاقی تعلیم کا انتظام تو سرے سے نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کو بہت زیادہ مضامین پڑھانے کے بجائے چند ایک مضامین پڑھانے کے ساتھ انہیں اٹھنے بیٹھنے، بول چال اور ملنے جلنے کے آداب سکھائے جائیں۔ انہیں دوسروں سے گفتگو کرنے کا طریقہ بتایا جائے اور تنقید کے اصول سکھائے جائیں۔ اگر اس قسم کی تعلیم کو عام کردیا جائے اور نوجوانوں کا اخلاق و کردار بلند ہوجائے تو معاشرے میں امن قائم ہوگا اور معاشرہ جنت نظیر بن جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔