جاپان اور جاپانی لوگ

جاوید چوہدری  جمعرات 8 جون 2023
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ٹوکیو شہر کے درمیان 16مرلے کا ایک عام سا گھر ہے‘ یہ گھر کسی بھی طرح قابل توجہ یا پرکشش نہیں‘ آپ اگر پاکستانی ہیں تو آپ اس پر توجہ دیے بغیر چپ چاپ گزر جائیں گے لیکن میں اگر آپ کو یہ بتا دوں کہ یہ دنیا کی ساتویں بڑی کار ساز کمپنی ہونڈا کے سی ای او کا گھر ہے تو کیا آپ پھر بھی اس پر توجہ نہیں دیں گے؟ آپ یقینا اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔

ہونڈا نے 2022میں چار ملین گاڑیاں اور 17ملین موٹر سائیکل بیچے تھے‘ کمپنی کی برینڈ ویلیو 22بلین ڈالر ہے لیکن اس کا سی ای او 16 مرلے کی عام سی عمارت میں رہتا ہے۔

کیا یہ اچنبھے کی بات نہیں؟ یہ یقینا ہے مگر یہ اچنبھا صرف ہم جیسے چھوٹے دماغ اور بڑی انا کے لوگوں کے لیے ہے جب کہ جاپان میں یہ عام سی بات ہے‘ جاپانی لوگ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں۔

ان کا گھر کسی بھی طرح دو تین مرلے سے بڑا نہیں ہوتا‘ ایک جدید مگر کامن باتھ روم‘ ایک ٹی وی لاؤنج کم ڈرائنگ روم اور زیادہ سے زیادہ دو بیڈرومز اور گھر ختم۔

اب سوال یہ ہے جاپانی چھوٹے گھروں میں کیوں رہتے ہیں؟ اس کی چار وجوہات ہیں‘ یہ لوگ صفائی کے خبط میں مبتلا ہیں‘ عام جاپانی سے لے کر وزیراعظم تک پورا ملک اپنا گھر خود صاف کرتا ہے اور یہ صفائی ہاتھ کے ساتھ مل مل کر کی جاتی ہے‘ پورا گھرانہ دن میں تین چار مرتبہ گھر کی صفائی کرتا ہے‘ باتھ رومز اور کچن تک خود صاف کیا جاتا ہے۔

شہروں میں ڈسٹ بین اور کچرا گھر نہیں ہیں‘ آپ خالی بوتل لے کر سارا دن پھرتے رہیں آپ کو پھینکنے کی جگہ نہیں ملے گی‘ کیوں؟ کیوں کہ جاپانی باہر کچرا نہیں پھینکتے‘ یہ اپنا گند بیگ میں ڈال کر گھر لے جاتے ہیں‘ تھیلے میں ڈالتے ہیں اور میونسپل کمیٹی کا عملہ یہ تھیلے گھروں سے لے کر جاتا ہے۔

اسکول میں چھوٹے بچوں کو بھی صفائی کی ٹریننگ دی جاتی ہے‘ طالب علم صبح اسکول آ کر پہلے اساتذہ کے ساتھ اسکول کی صفائی کرتے ہیں‘ باتھ روم اور شیشے چمکاتے ہیں اور پھر کلاسز شروع ہوتی ہیں‘ وزیراعظم بھی اپنی میز چمکا کر گھر جاتا ہے اور صبح آ کر دوبارہ اپنا دفتر صاف کرتا ہے‘ بچے اسکول جاتے اور واپس آتے وقت بھی سڑکوں سے سگریٹ کے ٹوٹے اور کاغذ چنتے رہتے ہیں۔

واش روم ہر شخص استعمال کے بعد چمکا کر باہر آتا ہے‘ مجھے نو دنوں میں کسی بھی جگہ کوئی واش روم گندایا گیلا نہیں ملا اور میں نے کسی واش روم میں صفائی کرنے والا ملازم بھی نہیں دیکھا‘ ٹرین اسٹیشن کے واش روم تک بے بو‘ خشک اور صاف تھے۔

لہٰذا جاپانی لوگ صفائی کی وجہ سے بھی چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں بڑے گھروں کا مطلب زیادہ صفائی ہے اگر گھر بڑا ہو جائے گا تو ہمیں زیادہ صفائی کرنا پڑے گی چناں چہ چھوٹے گھروں میں رہ کر وقت بچائیں‘ دوسری وجہ چھوٹے گھروں میں بجلی‘ گیس اورپانی کے اخراجات کم ہوتے ہیں‘ یہ لوگ من حیث القوم بچت کے عادی ہیں۔

آپ کو کوئی جاپانی فضول خرچی کرتا نظر نہیں آئے گا‘ یہ لوگ پیسہ پیسہ بچاتے ہیں چناں چہ حکومت اکانومی چلانے کے لیے بینکوں میں رقم جمع کرانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے‘ بینک کھاتے داروں کو سود دینے کے بجائے سروسز چارجز کاٹ لیتے ہیں۔

اس لحاظ سے جاپان شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا جس میں بینک میں پڑی رقم زیادہ ہونے کے بجائے کم ہوتی چلی جاتی ہے‘ بڑے گھر بچت کے فارمولے میں بھی ایڈجسٹ نہیں ہوتے لہٰذا یہ چھوٹے گھروں کو پسند کرتے ہیں‘ تیسری وجہ یہ مہمانوں کو گھر نہیں بلاتے‘ والدین بھی اگر بچوں سے ملنے آتے ہیں تو یہ ہوٹل میں رہتے ہیں۔

ریستوران میں بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتے ہیں اور مل کر واپس چلے جاتے ہیں چناں چہ ان کی نظر میں بڑے گھر بے کار ہوتے ہیں اور چار جاپان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں وقت کے ساتھ گھروں کی قیمت بڑھنے کے بجائے کم ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال پراپرٹی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ جاپان میں گھر کی ویلیو میں کمی ہوتی ہے لہٰذا لوگ بڑے گھر کو نقصان دہ سودا سمجھتے ہیں اور جاپان اس لحاظ سے ایک مختلف ملک ہے۔

جاپان صرف گھروں کے معاملے میں مختلف ملک نہیں بلکہ یہاں زندگی کا ہر رنگ باقی دنیا سے مختلف ہے‘ یہ لوگ انتہائی سادہ ہیں‘ کم پر گزارہ کرتے ہیں‘ بچے پیدل اور سائیکل پر اسکول آتے ہیں۔

کوئی والد کسی بچے کو گاڑی پر اسکول نہیں چھوڑتا‘ اس کی وجہ بچوں کو احساس کمتری سے محفوظ رکھنا ہے اگر ایک بچہ گاڑی اور دوسرا پیدل یا سائیکل پر آئے گا تو دونوں کے درمیان غربت یا امارت کی دیوار کھڑی ہو جائے گی اور جاپان بچوں کے درمیان یہ دیوار نہیں بننے دیتا چناں چہ بچے پیدل اسکول جائیں گے خواہ وہ وزیراعظم یا ٹویوٹا کے سی ای او کے بچے ہی کیوں نہ ہوں۔

بچوں کو اسکول پہنچانے کا سسٹم بھی انتہائی دل چسپ ہے‘رہائشی بلاک کا کوئی ایک شخص یا خاتون ریٹائرمنٹ کے بعد بچوں کو اسکول چھوڑنے اور واپس لینے کی ذمے داری اٹھا لیتی ہے‘ یہ مستقل ذمے دار ہوتی یا ہوتا ہے جب کہ اس کے علاوہ باقی بچوں کے والدین میں سے کوئی ایک روزانہ کی بنیاد پر ڈیوٹی دیتا ہے۔

ایک دن ایک والد یا والدہ ہو گی اور دوسرے دن دوسری والدہ یا والد یہ ذمے داری اٹھا ئے گا‘ بلاک کے تمام بچے وقت مقررہ پر اپنے گھر سے باہر آ جاتے ہیں‘ مستقل اور عارضی ذمے دار جھنڈا اٹھا کر باہر کھڑا ہو گا‘ بچے ان کے گرد جمع ہوں گے‘ ایک ذمے دار بچوں کے آگے چلے گا اور دوسرا قطار کے آخری سرے پر‘ تمام بچوں نے سر پر ہیلمٹ پہنا ہوگا۔

ان کے ہاتھ میں چھتری ہوگی اور یہ قطار میں اسکول پہنچیں گے اور چھٹی کے وقت قطار میں واپس آئیں گے اور اپنے اپنے گھر میں داخل ہوتے چلے جائیں گے‘ بچوں کو لنچ اسکول میں دیا جاتا ہے اور ٹیچر اپنی نگرانی میں وہ ختم کراتی ہے اور لنچ میں دودھ لازم ہے‘ چھوٹے بچوں کو اسکول میں سلایا بھی جاتا ہے تاکہ ان کی نیند پوری ہو سکے‘ بچے 16 سال کی عمر تک اس طرح اسکول آتے اور جاتے ہیں‘ 16 سال بعد یہ انڈی پینڈنٹ ہو جاتے ہیں۔

بچوں کی اسکول فیس والدین کی سالانہ آمدنی کے مطابق ہوتی ہے‘ والدین زیادہ کما رہے ہیں تو بچوں کی فیس زیادہ ہو گی‘ آمدنی کم ہے تو فیس کم ہو گی اور والدین اگر بے روزگار ہیں تو بچے کی فیس معاف ہو جائے گی تاہم بچے کو فیس کے بارے میں ہرگز نہیں بتایا جاتا‘ یہ خودکار نظام ہے‘ کوئی کسی کو اطلاع نہیں دیتا‘ بچوں کا میڈیکل بھی فری ہوتا ہے‘ انشورنس لازمی ہے تاہم انشورنس کی 70فیصد رقم حکومت اور 30 فیصد لوگ دیتے ہیں۔

گھروں اور ریستورانوں میں فریش فوڈ تیار ہوتا ہے‘ تیار خوراک فریج میں نہیں رکھی جاتی چناں چہ یہ صرف اتنا پکاتے اور آرڈر کرتے ہیں جتنا یہ کھا سکتے ہیں‘ اضافی خوراک ضایع کر دی جاتی ہے‘ پورے ملک میں پرندوں کو دانا نہیں ڈالا جاتا‘ یہ لوگ سمجھتے ہیں پرندوں کو دانا ڈالنے سے ان کی پرواز بھی محدود ہو جاتی ہے اور ان کی خودمختاری اور آزادی بھی کم ہو جاتی ہے‘پرندوں کو اپنی خوراک کا خود بندوبست کرنا چاہیے۔

جاپان میں بھکاری نہیں ہیں‘ اس کی وجہ جاپانیوں کی سیلف ریسپکٹ ہے‘ یہ لوگ کسی کو فری چیز دیتے ہیں اور نہ لیتے ہیں‘ آپ اگر انھیں کوئی چیز آفر کریں تو یہ مائینڈ کر جاتے ہیں‘ میں نے فیوجی کے ایک پارک میںمچھلیوں کو دانا ڈالنے کے لیے دانے کا پیکٹ خریدا‘ میرے ساتھ ایک بچہ بھی کھڑا تھا۔

میں نے چند دانے اسے بھی پکڑا دیے اور وہ بھی میرے ساتھ مچھلیوں کو دانا ڈالنے لگا‘ اس کی ماں نے دیکھا تو وہ دوڑتی ہوئی آئی اور بچے کے ہاتھ سے دانے چھین کر مجھے واپس کر دیے اور میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا‘ یہ لوگ دوسروں کو جھک کر ملتے ہیں‘ آپ کسی سے راستہ پوچھ لیں وہ اپنا کام چھوڑ کر آپ کے ساتھ چل پڑے گا اور آپ کو پہنچا کر آئے گا یا پھر راستے پر چھوڑ کر آئے گا‘ نہایت عاجزی کے ساتھ جھک کر شکریہ ادا کرتے ہیں۔

آپ کسی دکان میں چلے جائیں‘ سیلزمین یا گرل سروس کی انتہا کر دے گی‘ وہ فرش پر بیٹھ کر آپ کے جوتے تک اتروائے گا‘ یہ لوگ گھروں اور دفتروں میں جوتے لے کر نہیں آتے‘ جوتے مین دروازے کے ساتھ اتارے جاتے ہیں اور گھر کے سلیپر پہن کر اندر داخل ہوتے ہیں‘ یہ اہتمام پرائیویٹ دفتروں میں بھی ہوتا ہے‘ گھروں میں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں‘ پانی برفیلا اور ٹھنڈا پیتے ہیں۔

پورا ملک گرین ٹی پیتا ہے‘ یہ ٹی اوچا کہلاتی ہے اور بوتلوں اور کین میں بھی ملتی ہے‘ یہ لوگ ٹپ نہیں لیتے‘ آپ اگر دیں تو یہ برا منا جاتے ہیں‘ اسٹورز سے فالتو چیزیں نہیں خریدتے‘ مجھے عرفان صدیقی نے بتایا 2011 کے سونامی میں کروڑ سے زیادہ لوگ میٹروا سٹیشنز اور سڑکوں پر پھنس گئے تھے‘ یہ لوگ اس بحران میں بھی اسٹور سے پانی کی صرف ایک بوتل اور دو بسکٹ خریدتے تھے تاکہ خوراک کی قلت نہ ہو اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو‘یہ قطار بنانے کے خبط میں بھی مبتلا ہیں۔

ایک شخص بھی ہو گا تو وہ قطار بنا لے گا اور جب تک کاؤنٹر بوائے فارغ نہیں ہوگا یہ اس سے مخاطب نہیں ہوگا اور کاؤنٹر بوائے بھی جب تک سامنے کھڑے شخص کا کام مکمل نہیں کرے گا یہ دوسرے شخص کی طرف متوجہ نہیں ہوگا خواہ اس میں کتنے ہی گھنٹے کیوں نہ لگ جائیں۔

سچ بولتے ہیں اور یہ سچ خواہ ان کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ کر دے یہ باز نہیں آتے‘ مجھے عرفان صدیقی نے بتایا‘ میں نے ایک بار پولیس اہلکار کو دیکھ کر سیٹ بیلٹ باندھ لی‘ میری بیٹی نے فوراً کانسٹیبل کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اسے بتایا میرے بابا سیٹ بیلٹ کے بغیر آ رہے تھے‘ انھوں نے آپ کو دیکھ کر بیلٹ باندھی اور کانسٹیبل نے ہنس کر مجھے وارننگ دے دی اور یہ ہے جاپانی کریکٹر‘ سچ‘ عاجزی اور صفائی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔